رسائی کے لنکس

بچوں کی فحش ویڈیوز بنانے کے مجرم کو سات سال قید


'ایف آئی اے' کے مطابق ملزم سے ساڑھے چھ لاکھ سے زائد بچوں کی نازیبا تصاویر، فلمیں اور دیگر مواد برآمد ہوا تھا۔

پاکستان میں پہلی بار بچوں کے ساتھ بدفعلی اور ان پر جنسی تشدد کی فحش فلمیں بنانے والے مجرم کو قید اور جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے۔

جمعرات کی شام پاکستان کے صوبے پنجاب کے دارلحکومت لاہور کی ایک مقامی عدالت کے سائبر کرائم جج نے بچوں کی فحش فلمیں بنانے کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم سعادت امین کو سات سال قید اور 12 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

عدالت نے مجرم کو یہ سزا سائبر کرائم قوانین کے تحت سنائی ہے۔

سعادت امین کے خلاف ناروے کے سفارت خانے نے حکومتِ پاکستان کو درخواست دی تھی جس پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کارروائی کرتے ہوئے گزشتہ سال اپریل میں ملزم کو پنجاب کے شہر سرگودھا سے گرفتار کیا تھا۔

'ایف آئی اے' کے مطابق ملزم سے ساڑھے چھ لاکھ سے زائد بچوں کی نازیبا تصاویر، فلمیں اور دیگر مواد برآمد ہوا تھا۔

'ایف آئی اے' کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے سائبر کرائمز آصف اقبال نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ سعادت امین کا بچوں کی فحش فلمیں بنانے والے گروہ سے تعلق تھا جس کا اس نے تفتیش کے دوران اعتراف بھی کیا تھا۔

آصف اقبال کے مطابق سعادت امین جس عالمی گروہ کا حصہ تھا وہ سوئیڈن، اٹلی، امریکہ اور انگلینڈ میں مقیم افراد کو بچوں کی فحش تصاویر اور فلمیں فراہم کرتا تھا۔

'ایف آئی اے' کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے تصدیق کی کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے سعادت امین کو سنائی جانے والی سزا پاکستان کی تاریخ میں ایسے کسی بھی مقدمے میں دی جانے والی پہلی سزا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے مقدمے سے متعلق وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پر "دیر آید درست آید" والا محاورہ صادق آتا ہے کیونکہ شور تو بہت مچتا تھا اور باتیں بھی بہت ہوتی تھیں لیکن کبھی عمل نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مقدمے میں پہلی بار کسی کو سزا ہوئی ہے اور ایسے ملزمان کو مستقبل میں بھی عبرت ناک سزائیں سنانی چاہئیں۔

پاکستان میں بچوں کے کے ساتھ جنسی زیادتی، بد فعلی اور ان کی نازیبا تصاویر اور فلمیں بنانے کے کئی واقعات حالیہ چند برسوں کے دوران تواتر سے رپورٹ ہوئے ہیں۔

اس سے قبل 2016ء میں صوبہ پنجاب کے وسطی شہر قصور میں 200 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کی فحش فلمیں بنانے کا اسکینڈل منظرِ عام پر آیا تھا۔

XS
SM
MD
LG