رسائی کے لنکس

ملک کے تینوں اہم ستون اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کر رہے: رضا ربانی


فائل
فائل

پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ’’ملک کے تینوں اہم ستون عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کر رہے ہیں‘‘۔

کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’اُن عوامل پر غور کی ضروری ہے کہ 100دنوں کے بعد ہی وزیر اعظم کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟‘‘

انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس کا مقصد "مصنوعی" ایک تہائی اکثریت حاصل کرنا ہو سکتا ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ ’’پاکستان جمہوری اور پارلیمانی رویے سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ ملک میں ون یونٹ یا صدارتی نظام کی گنجائش موجود نہیں‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ نئے صوبوں کی بجائے موجودہ صوبوں کو مستحکم کرنے کے حق میں ہیں۔

اس سے قبل، سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری بھی الزام عائد کرچکے ہیں کہ ’’تحریک انصاف کی موجودہ حکومت 1973 کے متفقہ آئین کو ختم کرنے کی درپے ہے‘‘۔

میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ملکی آئین میں تمام اداروں کا کردار اور حدود متعین ہیں، ’’مگر بدقسمتی سے ،بعض ادارے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں‘‘۔

میاں رضا ربانی نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت نے پارلیمنٹ اور عوام کو آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات پر کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ قرضے کے لئے تمام شرائط مانی جا رہی ہیں، ایسے میں ملک اگر بلیک لسٹ ہوجاتا ہے تو کون ذمہ دار ہوگا‘‘۔

میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’’ملک میں میڈیا پر قدغن لگائی جا رہی ہیں جو ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی ضرورت کے مطابق کی جا سکتی ہے، مگر اس کا مقصد آگے بڑھنا ہو پیچھے ہٹنا نہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’موجودہ صورتحال میں سینیٹ کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنایا جائے۔ جب تک وفاق اور پارلیمینٹ کو مضبوط نہیں کرینگے مسائل حل نہیں ہونگے‘‘۔

یاد رہے کہ وفاق میں برسر اقتدار تحریک انصاف کے کئی رہنما 18 ویں آئینی ترمیم پر نکتہ چینی کرچکی ہیں۔ تاہم، حکومت نے ابتک اس بارے میں کوئی واضح موقف نہیں اپنایا۔

میاں رضا ربانی نے حکومت کی جانب سے مختلف قوانین میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترامیم کی اطلاعات پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور نظام ٹاسک فورس اور آرڈیننس کے ذریعے چلانے کے بجائے پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG