برطانیہ کے وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنی کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کا اعلان کیا ہے جسے گزشتہ چار برسوں سے برسرِ اقتدار کیمرون حکومت کی جانب سے آئندہ عام انتخابات سے قبل رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
وزیر اعظم کیمرون کی طرف سے اپنی کابینہ میں ردوبدل کے نتیجے میں وزیر تعلیم مائیکل گوو بھی عہدہ چھوڑ گئے ہیں اور صنفی عدم توازن کا شکار برطانوی کابینہ میں خواتین وزرا کی تعداد پہلے سے تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق وزیرِِاعظم کیمرون نے برطانوی کابینہ میں تبدیلیوں کے فیصلے کا اعلان منگل کو ٹوئٹر پر کیا۔
کابینہ میں آنے والے تبدیلیوں پر کئی حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم کے اس فیصلے کو ان کے چار سالہ دور حکومت کا اہم ترین قدم قرار دیا جارہا ہے۔
کابینہ میں ان تبدیلیوں کا مقصد حکومت میں خواتین اور حکمران جماعت 'کنزرویٹوز' کے سینئر رہنماؤں کو زیادہ کردار دینا ہے تاکہ آئندہ برس مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل حکومتی کارکردگی بہتر بنا کر ووٹروں کی حمایت حاصل کی جاسکے۔
گزشتہ روز وزیر خارجہ ولیم ہیگ کی جانب سے کابینہ سے مستعفی ہونے کے بعد ویرِاعظم کیمرون نے سابق وزیر دفاع اور یورپی یونین کے مخالف سیاست دان فلپ ہیمنڈ کو وزیرخارجہ کا قلم دان سونپ دیا ہے۔
ولیم ہیگ کو برطانوی پارلیمان کے ایوانِ زیریں 'دارالعوام' میں قائد ایوان مقرر کیا گیا ہے۔ قائدِ ایوان کی حیثیت سے جناب ہیگ ایوان میں سرکاری امور کی نگرانی اور بخوبی انجام دہی کے ذمہ دار ہوں گے۔
کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں ڈیوڈ کیمرون کے دیرینہ ساتھی اور دائیں بازو کے نظریات کے حامل ممتاز سیاست دان مائیکل گوو بھی وزارت تعلیم کے عہدے سے فارغ ہوگئے ہیں۔
اگرچہ جناب گوو کی متعارف کرائی گئی متنازع تعلیمی اصلاحات کو اساتذہ کی تنظیمیں کڑی تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم نے انہیں پارٹی کا 'چیف وہپ' مقرر کردیا ہے۔
مائیکل گوو کو 'چیف وہپ' کے ساتھ ساتھ آئندہ برس 'کنزرویٹوز' کی انتخابی مہم کے حوالے سے بھی اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق جناب گوو کی کابینہ سے غیر متوقع رخصتی کو تعلیمی اصلاحات کی رفتار سست رکھنے اور عام انتخابات سے قبل حکومت اور اساتذہ کے درمیان حائل خلیج دور کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
وزیرِ تعلیم کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد 'چیف وہپ' کی حیثیت سے مائیکل گوو ایک وزیر کے برابر سالانہ تنخواہ وصول تو کریں گے لیکن انھیں کابینہ کے مکمل رکن کی حیثیت حاصل نہیں رہے گی۔
لیکن اس کے باوجود 'چیف وہپ' کی حیثت سے کابینہ کے اجلاس میں شرکت کا حق بدستور ان کے پاس رہے گا۔
جناب گوو کی جگہ ٹوری جماعت کی جونیئر رہنما اور وزیر برائے امورِ نسواں نکی مورگن کو ملک کا نیا وزیرِتعلیم مقرر کیا گیا ہے۔
کابینہ کی اہم ترین وزارتوں میں رد و بدل کے بعد وزیر اعظم کی 22 رکنی کابینہ میں خواتین وزرا کی تعداد پانچ ہو گئی ہے جو اس سے قبل تین تھی۔ تین سینئر خواتین سیاست دان بھی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کا حق رکھتی ہیں جن کی تعداد اس سے قبل دو تھی ۔
برطانیہ میں مقامی کونسلوں کے حال ہی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اور رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ حکمران جماعت کو اپنی حریف 'لبرل' پارٹی سے سخت مسابقت کا سامنا ہے اور 'لبرلز' کو 'ٹوریز' پر تین سے سات فی صد پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔