رسائی کے لنکس

دریائے ہڈسن میں کریش لینڈنگ، جس میں تمام مسافر محفوظ رہے


دریائے ہڈسن میں طیارے کی کریش لینڈنگ کے بعد مسافر ایمرجینسی دورازوں سے نکل کر پروں پر کھڑے ہیں۔ 15 جنوری 2009
دریائے ہڈسن میں طیارے کی کریش لینڈنگ کے بعد مسافر ایمرجینسی دورازوں سے نکل کر پروں پر کھڑے ہیں۔ 15 جنوری 2009

15 جنوری 2009 کا دن ہوابازی کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس روز نیویارک کے لا گارڈیا ایئر پورٹ سے یو ایس ایئر لائنز کی فلائٹ نمبر 1549 نے اڑان بھری۔ یہ فلائٹ نارتھ کیرولائنا کے شہر شارلے جا رہی تھی۔ طیارے پر 148 مسافر سوار تھے۔

تین کیبن پر مشتمل ایئربس اے 320 طیارہ سہ پہر تین بجکر 26 منٹ پر فضا میں بلند ہوا، مگر چند ہی لمحوں میں بڑے پرندوں کا ایک غول جیٹ طیارے سے ٹکرا گیا اور انجنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس وقت طیارہ دریائے ہڈسن کے قریب پرواز کر رہا تھا۔

طیارے نے ابھی پوری طرح قوت نہیں پکڑی تھی اور انجن بند ہونے کے بعد وہ ایک گلائیڈر کی طرح ہوا میں تیر رہا تھا۔

یہ طیارہ کیپٹن چیسلی برنیٹ سوہنبرگر اڑا رہے تھے۔ ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی تھا۔ انہوں نے حادثے کی اطلاع کنٹرول ٹاور کو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ایمرجینسی لینڈنگ کرنا چاہتے ہیں۔ کنٹرول ٹاور نے انہیں ہدایت دی کہ وہ قریبی ایئرپورٹ ٹیٹربورو پر اتر جائیں۔

انہوں نے پرسکون لہجے میں جواب دیا کہ طیارے کی طاقت ختم ہو رہی ہے اور وہ رن وے تک نہیں پہنچ سکتے۔ پھر انہوں نے اپنی سوچ کے بارے میں کنٹرول ٹاور کو آگاہ کیا کہ میں دریائے ہڈسن پر لینڈ کر رہا ہوں۔

دریائے ہڈسن میں کریش لینڈنگ کرنے والے طیارے کے پائلٹ سوہنبرگر
دریائے ہڈسن میں کریش لینڈنگ کرنے والے طیارے کے پائلٹ سوہنبرگر

کیپٹن سوہنبرگر بتاتے ہیں کہ انجن فیل ہونے اور طیارہ لینڈ کرنے کا درمیانی وقفہ محض ساڑھے تین منٹ تھا۔ یہ ان کی زندگی کے سخت ترین لمحات تھے۔ ان پر 155 افراد کی زندگیوں کی ذمہ داری تھی۔ انہوں نے اپنے حواس بحال رکھے اور طیارے کا رخ دریا کے وسط کی جانب موڑتے ہوئے اس کی بلندی کم کرنا شروع کر دی۔

اس کے بعد کیپٹن سوہنبرگر نے طیارے کے سہمے ہوئے 150 مسافروں اور عملے کے پانچ ارکان کو بتایا: ''ہم دریا پر لینڈ کر رہے ہیں، جھٹکا برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں''۔

اس کے 90 سیکنڈ کے بعد سوہنبرگر نے ایئربس 320 کو نیویارک کے جارج واشنگٹن برج کے اوپر سے گلائیڈ کرتے ہوئے مین ہیٹن اور نیوجرسی کے درمیان دریائے ہڈسن کے عین وسط میں اتار دیا۔

یہ 15جنوری کی ایک یخ سہ پہر تھی اور صبح برف باری کے بعد فضا صاف ہو گئی تھی۔ دریائے ہڈسن کا پانی برف کی مانند سرد تھا۔ چند جھٹکے کھانے کے بعد طیارہ پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے آہستہ آہستہ ڈوبنے لگا۔

طیارے کے عملے نے مسافروں کو لائف جیکٹس پہنا کر ایمرجینسی دروازوں کے ذریعے باہر نکل کر جہاز کے پروں پر جانے کی ہدایت کی۔ دریائے ہڈسن میں تیرتی ہوئی ایک بڑی تفریحی کشتی نے، جو حادثے کے مقام کے قریب تھی، تیزی سے مدد کے لیے پہنچی اور مسافر اس میں سوار ہونے لگے۔ پھر دوسری کشتیاں اور امدادی کارکن بھی موقع پر پہنچ گئے اور مسافروں کو بحفاظت نکلنے میں مدد دینے لگے۔

ڈوبتے طیارے سے باہر نکلنے والے آخری شخص کیپٹن سوہنبرگر تھے۔

حادثے میں صرف ایک مسافر کی ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹیں، کچھ کو معمولی زخم آئے اور چند ایک کو ٹھنڈ لگ گئی۔ لیکن، تمام مسافروں کی زندگیاں محفوظ رہیں۔

اس حادثے کو ہوابازی کی تاریخ کاایک اہم واقعہ قرار دیا جاتا ہے جس میں کیپٹن کی حاضر دماغی اور بروقت درست فیصلے سے طیارے پر سوار تمام افراد کی زندگیاں بچ گئیں۔

اس وقت کے نیویارک کے گورنر ڈیوڈ پیٹرسن نے اس واقعہ کو ' دریائے ہڈسن کے معجزے' کا نام دیا۔

کمرشل پائلٹ بننے سے قبل سوہنبرگر لڑاکا جیٹ طیارے اڑانے کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ انہوں نے فوج میں 35 سال تک خدمات سرانجام دیں تھیں، جس نے حادثے میں مسافروں کی جان بچانے میں ان کی مدد کی۔

اس تاریخی کارنامے پر سوہنبرگر کو ہیرو کے اعزاز سے نوازا گیا اور براک اوباما کی بطور صدر حلف برداری کی تقریب میں انہیں بطور مہمان مدعو کیا گیا۔ امریکی کانگریس نے ایک قرارداد منظور کی جس میں سوہنبرگر کو سراہا گیا۔

XS
SM
MD
LG