رسائی کے لنکس

کرونا وائرس اور چین کے خلاف مقدمہ؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کی مختلف ریاستوں کی عدالتوں میں چین کے خلاف اس الزام میں مقدمات دائر کیے جا رہے ہیں کہ اس نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے معاملے میں لا پرواہی سے کام لیا، جس سے لوگوں کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

تازہ ترین مقدمے کا اعلان ریاست میزوری کے اٹارنی جنرل نے یہ الزام لگاتے ہوئے کیا کہ چینی عہدیدار کرونا وائرس کی اس وبا کے ذمہ دار ہیں، جس سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ اس سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہوئے اور اپنی معیشت سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں کی معیشتوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

سرکاری طور سے ریاستی سطح پر ہونے والا یہ پہلا مقدمہ ہے۔ دوسری جانب چین کی وزارتِ خارجہ نے اس مقدمے کو مسترد کر دیا ہے۔

جیف کاسٹر کی رپورٹ کے مطابق، بدھ کے روز چین کی وزارت خارجہ کی ایک بریفنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے، جس کی کوئی حقیقی یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔ بیشتر قانونی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ اس قسم کے مقدمات اکثر سیاسی مقاصد یا تشہیر کے حصول کے لئے ہوتے ہیں۔

سیاٹل یونیورسٹی میں اسکول آف لا کے پروفیسر ڈاکٹر طیب محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خود مختار ملکوں کو دوسرے ملکوں کی عدالتوں میں لائے جانے سے عمومی طور پر استثنٰی حاصل ہوتا ہے۔

انہوں کہا کہ امریکہ کے فارن سوورن ایمیونیٹیز ایکٹ کا بھی اس لا سوٹ میں تذکرہ آتا ہے جس کے تحت اس بات پر حدود عائد ہوتی ہیں کہ آیا ایک دوسرے خود مختار ملک پر امریکہ کی وفاقی یا ریاستی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا بھی یہاں اطلاق نہیں ہو سکتا، کیونکہ جب تک ملکوں کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کے تحت کسی ملک کو دوسرے ملک کی عدالتوں میں طلب کیا جاسکے یہ معاہدہ غیر موثر ہوتا ہے۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ اب یہاں کانگریس میں ایک ترمیمی بل لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے تحت جراثیمی ہتھیاروں سے متعلق مقدمات میں اس استثنٰی کو ختم کیا جاسکے۔

اس سوال پر آیا اس سلسلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں جایا جا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ امریکہ اور چین دونوں ہی اس عدالت کے فیصلوں کو قبول نہ کرنے کی مثالیں قائم کر چکے ہیں اور جب اس عدالت کا دائرہ اختیار ہی تسلیم نہیں تو وہاں کس طرح جایا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی قانون کے ایک اور ماہر احمر بلال صوفی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسٹیٹ ایمیونٹی کے قوانین ہوتے ہیں جن میں استثنٰی مشکل ہوتا ہے۔ یہ ہی صورت حال چین کے خلاف مقدمات میں بھی پیش آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ امریکہ کی متعلقہ عدالتوں کے جج ان قوانین کی کس طرح توضیح کرتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ مشکل نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت انصاف یا کسی دوسرے عالمی عدالتی فورم پر لے جایا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG