رسائی کے لنکس

'ملی مسلم لیگ پر امریکی پابندی پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے'


حافظ سعید کے حامی ان پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
حافظ سعید کے حامی ان پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملی مسلم لیگ کے ترجمان تابش قیوم نے کہا کہ ان کی جماعت ایک پرامن سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کے آئین کے مطابق سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

امریکہ کی جانب سے کالعدم تنظیم 'جماعت الدعوۃ' سے تعلق رکھنے کے الزام میں سیاسی جماعت 'ملی مسلم لیگ' کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیے جانے پر ملی مسلم لیگ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی خود مختاری پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملی مسلم لیگ کے ترجمان تابش قیوم نے کہا کہ ان کی جماعت ایک پرامن سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کے آئین کے مطابق سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

"امریکہ کو کوئی حق نہیں کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرے اور ان لوگوں پر دہشت گردی کا الزام ان لوگوں پر لگائے جو خود انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ ملی مسلم لیگ ہر قسم کی انتہا پسندی، دہشت گردی اور تشدد کے خلاف ہے. وہ پاکستان کو پرامن ملک بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔"

تابش قیوم کے بقول پاکستانی عدالتوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ملی مسلم لیگ کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب نہیں پائی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملی مسلم لیگ کا الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت اندراج کا مرحلہ جاری ہے اور اس موقع پر امریکہ کی جانب سے ایسے الزامات لگانا پاکستان کے لوگوں کو جمہوری عمل سے دور رکھنا اور جمہوری عمل کو متاثر کرنا ہے۔

"امریکی الزامات بے بنیاد، غلط اور منفی پروپیگنڈا ہیں۔ اگر امریکہ کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کرے جہاں ہم بھی ان کا جواب دیں گے۔"

تابش قیوم کا نام بھی ملی مسلم لیگ کے ان پانچ رہنماؤں میں شامل ہے جن کے بارے میں امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق لشکرِ طیبہ سے رہا ہے۔

معروف تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے ملی مسلم لیگ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے پر کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ ماضی میں جو جماعتیں دہشت گردی میں ملوث رہی ہیں اگر وہ نام بدل کر بھی آ جائیں تو ان پر پابندی ہی رہے گی۔

وائس آف امریکہ سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے رسول بخش رئیس نے کہا کہ ایسی جماعتوں کے سیاسی ونگ کے حوالے سے امریکی پالیسی درست نہیں۔

"یہ پالیسی درست نہیں ہے کہ پاکستان میں ایسی تمام جماعتوں کے سیاسی ونگ کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جائے اور حکومت ان کے خلاف مقدمات لڑتی رہے۔ اگر ایسی جماعتیں سیاست میں آنا چاہتی ہیں تو انہیں آنا دیا جائے۔ اگر وہ عوامی حمایت حاصل نہ کر سکِیں تو وقت کے ساتھ تحلیل ہو جائیں گی یا کسی دوسری سیاسی جماعت سے الحاق کرلیں گی۔"

ملی مسلم لیگ کو امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے پر وائس آف امریکہ نے حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے مختف وفاقی اور صوبائی وزرا سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے اجتناب کیا۔

ملی مسلم لیگ نے گزشتہ سال اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کی تھیں جس کے بعد اس جماعت کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت میں مختلف ضمنی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔

بھارت اور امریکہ کا الزام ہے کہ جماعت الدعوۃ سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہے۔ عالمی دباؤ کے باعث پاکستان نے بھی جماعت الدعوۃ کے خلاف حال ہی میں کئی اقدامات کیے ہیں اور تنظیم کے فلاحی ادارے سرکاری تحویل میں لے لیے ہیں۔

گزشتہ روز ہی لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک عبوری حکم میں پاکستان کی وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کو جماعت الدعوۃ کی فلاحی سرگرمیوں کو روکنے سے منع کرتے ہوئے حکومت سے 23 اپریل تک جواب طلب کرلیا تھا۔

XS
SM
MD
LG