رسائی کے لنکس

سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات کو طالبان قیادت کی تائید حاصل نہیں: معید یوسف


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات کو طالبان کی اعلیٰ قیادت کی تائید حاصل نہیں ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس کے دوران معید یوسف نےبریفنگ کے دوران تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا کہ کالعدم تنظیم کی جانب سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان تمام آپشن استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔

اس حوالے سے قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معید یوسف نے اجلاس کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ معاملات پر مثبت سمت میں پیش رفت جاری ہے۔

دونوں ممالک کی سرحد پر لگی باڑکے حوالے سےان کا کہنا تھا کہ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان اورطالبان دونوں کا اپنا اپنا مؤقف ہے۔ اس مسئلے کو سفارتی طریقے سے حل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

قبل ازیں افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی واضح کر چکے ہیں کہ بارڈر پر ہونے والے واقعات چھوٹے گروہوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تو ہو سکتی ہیں تاہم افغان قیادت تمام مسائل سفارتی سطح پر حل کرنے پر زور دیتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات و واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق نہیں ہیں۔ افغانستان کی ’پژواک نیوز ایجنسی‘ کے سینئر ایڈیٹر مدثر شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی کے بیانات ایک جانب لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں دراڑ نمایاں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مدثر شاہ نے بتایا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر شدت پسندوں کے حملوں میں تیزی اور باڑ اکھاڑنے کے واقعات کے بعد معید یوسف نے 18 جنوری کو افغانستان کا دو روزہ دورہ کرنا تھا جسے موسم کی خرابی کے باعث منسوخ کیا گیا۔ بعد میں 25 اور 26 جنوری کی نئی ممکنہ تاریخوں کے بارے میں بتایا گیا تاہم اب تک انہوں نے کابل کا دورہ نہیں کیا۔

مدثر شاہ کےمطابق سرحد پر باڑ کے حوالے سے پاکستان کی جو پوزیشن ہے اس کو افغانستان میں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ افغانستان میں کسی کی بھی حکومت ہو، کوئی بھی ڈیورنڈ لائن پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق معید یوسف نے قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے شرکا کو بتایا کہ افغانستان کی سر زمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال نو دسمبر کو تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے حکومت سے کیے گئے سیز فائر کے معاہدے کے یک طرفہ طور پر خاتمے کا اعلان کیا جب کہ اس کے بعد سے ٹی ٹی پی پچاس سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔

پژواک نیوز ایجنسی کے سینئر ایڈیٹر مدثر شاہ کا کہناتھا کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے خدشات درست ہیں البتہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پاکستانی احکامات کے بجائے اپنی سوچ کے مطابق کریں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑے ہیں۔ انھوں نے جنگ کے دوران افغانستان کے طالبان کو اپنی پناہ گاہیں فراہم کی تھیں۔ تو بہت مشکل ہے کہ طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کی شکایت پر کوئی کارروائی کریں۔

مدثر شاہ نے واضح کیا کہ افغانستان میں بیٹھ کر اگر ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے تو یقیناََ ان کے یہ حملے ضرور طالبان کے نوٹس میں ہوں گے۔

پاکستان کےوزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 38 فی صد ہوا ہے۔ شاید ٹی ٹی پی اب ان کے بھی کنٹرول سے باہر نکلتی جا رہی ہے اور کچھ ارکان نے شدت پسند تنظیم داعش میں بھی شمولیت اختیار کر لی ہے۔

'افغانستان کے ساتھ الجھنوں کو سفارتی ذرائع سے دور کرلیں گے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:54 0:00

امریکہ کے اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ سے وابستہ سینئر صحافی حق نواز خان کا کہنا ہے کہ سرحد پر باڑ کی تنصیب اور ٹی ٹی پی دونوں ممالک کے درمیان بڑے مسائل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حق نواز خان کا کہنا تھا کہ ڈیورنڈ لائن افغان عوام کے لیے ایک حساس معاملہ ہے اور طالبان کی اعلیٰ قیادت بھی اسے بین الاقوامی سرحد کے بجائے ایک فرضی لائن کے طور پر دیکھتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ طالبان کی کوئی ایسی منظم حکومت نہیں ہے کہ ان کے رہنما کی جانب سے جاری کیے گئےاحکامات کی مکمل تعمیل ہو۔ کنڑ، ننگرہار، پکتیا کے کمانڈروں کی سوچ شمالی کے علاقوں سےکے رہنماؤں سے مختلف ہے۔ انھیں اپنے علاقے کے عوام کی سرحد پار تجارت میں زیادہ دلچسپی ہے۔ سرحد پر باڑ کی وجہ سے ان علاقوں کے معاشی مفادات خراب ہوتے ہیں جس کے بعد ردِ عمل فطری ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے افغانستان کی موجودہ قیادت سرحد پر ہونے والے واقعات کی سختی سے مذمت نہیں کرتے بلکہ بہت محتاط رہتے ہوئے ان معاملات کو سفارتی سطح پر حل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔

حق نواز خان نے مزید بتایا کہ پاکستان کی جانب سے باڑ کی تعمیر ایک ایسے وقت میں کی گئی جب اس علاقے میں امریکہ موجود تھا۔ اب جب کہ مغربی طاقتیں واپس جا چکی ہیں تو پاکستان کے لیے یقیناََ باڑ کی مزید تنصیب اور اس کی حفاظت ایک مشکل کام ہے۔

ان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور مہاجرین کے مسائل کے علاوہ سرحد پر باڑ اور ٹی ٹی پی جیسے مسائل جلد حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

XS
SM
MD
LG