رسائی کے لنکس

مغربی افریقی ملک برکینا فاسو میں دہشت گردوں کا حملہ، کم از کم 160 افراد ہلاک


برکینا فاسو کا ایک فوجی ڈوری میں اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کے ایک کیمپ کی نگرانی کر رہا ہے۔ 20 فروری 2020
برکینا فاسو کا ایک فوجی ڈوری میں اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کے ایک کیمپ کی نگرانی کر رہا ہے۔ 20 فروری 2020

مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو کی حکومت نے ملک کے شمالی حصے میں واقع قصبے سولحان میں ایک حملے کے نتیجے میں کم ازکم 160 افراد کی ہلاکت کے بعد تین دن تک سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔

ریڈکراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے بتایا ہے کہ مقامی اسپتالوں پر زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے بہت دباؤ ہے جس کے پیش نظر ریڈکراس نے حکام کی درخواست پر شمالی قصبے ڈوری میں طبی ساز و سامان بھیج دیا ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی فار دی ریڈ کراس کے برکینا فاسو کے لیے سربراہ لوریٹ سوگی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم نے فوری طور پر ڈوری میں نصف ٹن طبی ساز و سامان بھیج دیا ہے جو زیادہ تر پٹیوں، ٹیکوں اور دردکش دواؤں پر مشتمل ہے۔ ان چیزوں کی انہیں اشد ضرورت تھی۔

بڑے پیمانے پر یہ ہلاکتیں جمعے کی رات نائیجر کی سرحد کے قریب واقع قصبے سولحان پر حملے کے نتیجے میں ہوئیں۔

بورکینا فاسو۔ نقشہ
بورکینا فاسو۔ نقشہ

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ قصبے پر یہ حملہ کس نے اور کیوں کیا تھا۔ کسی بھی گروپ نے ابھی تک حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ داعش کی کارروائی ہو سکتی ہے جو اس خطے میں صحارا کے علاقے میں سرگرم ہے۔

برکینا فاسو میں ہلاکت خیز حملوں کی ابتدا 2015 میں القاعدہ اور داعش سے منسلک مسلح گروہوں کے ساتھ مقامی آبادیوں کے درمیان کشیدگی کے نتیجے ہوئی۔

تاہم مارچ 2020 اور اپریل 2021 کے درمیانی عرصے میں ان حملوں میں ڈرامائی طور پر کمی ہوئی، لیکن اس سال اپریل کے آغاز سے ہی دوبارہ حملوں نے زور پکڑ لیا۔ اور اب تک سات بڑے حملے ہو چکے ہیں۔

برکینا فاسو کے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار اور فوج کے سابق عہدے دار محمدو سوادوگو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ مسلح دہشت گرد گروپس کی طرف سے اپنی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا صوبے یاگا اور خاص طور پر سولحان پر کنٹرول ہے۔ وہ گزشتہ ایک برس سے اس علاقے کو فتح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سولحان کے علاقے میں سونے کی کانیں ہیں اور دہشت گرد گروپ اکثر اوقات رقم بٹورنے کے لیے یہاں کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

بورکینا فاسو کے شہر ووگادوگو پر دہشت گرد حملے کے بعد سیکیورٹی فورس کے اہل کار علاقے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
بورکینا فاسو کے شہر ووگادوگو پر دہشت گرد حملے کے بعد سیکیورٹی فورس کے اہل کار علاقے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

برکینا فاسو کی فوج کے پاس وسائل بہت محدود ہیں اور اس کے لیے فرانس اور امریکی فوجیوں کی مدد کے باوجود ملک کے تمام حصوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔

دہشت گرد گروپس کے حملوں سے صرف لوگ ہلاک اور زخمی ہی نہیں ہو رہے بلکہ بڑے پیمانے پر انسانی زندگی کا بحران بھی جنم لے رہا ہے۔ حملوں کے باعث برکینا فاسو میں 12 لاکھ کے لگ بھگ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

ووگادوگو میں قائم نائیجیرین ریفوجی کونسل کی ایک عہدے دار میرین اولی ویسی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے بے گھر ہونے سے بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔ بہت سے لوگ خوف کے مریض بن چکے ہیں اور وہ محفوظ مقام کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان کے پاس سر چھپانے کی جگہ ہے اور نہ ہی کھانے کے لیے کچھ موجود ہے۔

برکینا فاسو کے صدر راک کیبور نے اپنے ایک ٹوئٹ میں سولحان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں لوگوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ ان کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بین الاقوامی کمیونٹی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں برکینا فاسو کی مدد میں دو گنا اضافہ کر دیں۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا زیاں ناقابل قبول ہے۔

XS
SM
MD
LG