رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم لندن کے تین راہنما گرفتار


ایم کیو ایم کے حسن ظفر کو سیکیورٹی اہل کار کراچی پریس کلب ک باہر سے پکڑ کر لے جارہے ہیں۔ 22 اکتوبر 2016
ایم کیو ایم کے حسن ظفر کو سیکیورٹی اہل کار کراچی پریس کلب ک باہر سے پکڑ کر لے جارہے ہیں۔ 22 اکتوبر 2016

امجد اللہ نے اس موقع پر موجود کچھ میڈیا نمائندوں سے انتہائی مختصر گفتگو میں بتایا کہ راہنماؤں کو پریس کانفرنس کے دوران کچھ لوگوں کی ایم کیو ایم لندن میں شمولیت کا اعلان کیا جانا تھا۔

متحدہ قومی موومنٹ لندن کی عبوری رابطہ کمیٹی کے تین ارکان کو ہفتے کی شام کراچی پریس کلب کے باہر سے رینجرز نے حراست میں لے لیا۔ ان میں کنور خالد یونس، پروفیسر حسن ظفر عارف اور امجد اللہ شامل ہیں۔

کنور خالد یونس اور پروفیسر حسن ظفر عارف پریس کانفرنس کی غرض سے کلب پہنچے تھے تاہم انہیں وہاں پہلے سے تعینات رینجرز کی بھاری نفری نے حراست میں لے لیا اور فوری طور پر میٹھا رام بالمقابل ڈی جے کالج کے قریب واقع رینجرز کیمپ منتقل کردیا۔

ان دونوں راہنماؤں کو حراست میں اطلاعات موصول ہوئیں کہ پریس کانفرنس ملتوی کردی گئی ہے. امجداللہ چار گھنٹے بعد جیسے ہی پریس کلب سے باہر نکلے ان کے انتظار میں موجود رینجرز نے انہیں بھی حراست میں لے لیا۔

امجد اللہ نے اس موقع پر موجود کچھ میڈیا نمائندوں سے انتہائی مختصر گفتگو میں بتایا کہ راہنماؤں کو پریس کانفرنس کے دوران کچھ لوگوں کی ایم کیو ایم لندن میں شمولیت کا اعلان کیا جانا تھا۔

ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔۔؟
اگرچہ فوری طور پر ان راہنماؤں کی گرفتاری سے متعلق کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوالیکن سیاسی تجزیہ نگار خاص طور پر کراچی کے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ چونکہ ایم کیو ایم لندن کی کراچی میں سیاسی سرگرمیوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہا ہے لہذا ان راہنماؤں سے انہیں سرگرمیوں کے حوالے سے پوچھ گچھ ہوسکتی ہے۔

اب سے دو ماہ پہلے تک ایم کیو ایم سندھ کی دوسری بڑی اور اہم سیاسی جماعت کہلاتی تھی لیکن آج ہی کی تاریخ پر یعنی 22اگست کو اس کے بانی راہنما الطاف حسین کی جانب سے مبینہ طور پر پاکستان مخالف تقریر اور نعروں کے بعد صورتحال دیکھتے دیکھتے اس قدر خراب ہوگئی کہ آج مخالفین یہ کہنے سے نہیں چوکتے کہ ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ اس حوالے سے وی او اے کے نمائندے نے مختلف سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے ان کے خیالات جانے کی کوشش کی جبکہ زمینی حقائق بھی اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم رفتہ رفتہ بکھرتی جارہی ہے۔ مثلاً

ایم کیو ایم : ایک سے چار ہوگئیں
پی ایس پی : پہلا دھڑا

ایم کیو ایم کو رواں سال 20مارچ کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب پارٹی کے ایک منحرف کارکن اور کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال اور ایک اور راہنما انیس قائم خانی اچانک بیرون ملک سے پاکستان لوٹے اور انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف نہ صرف پریس کانفرنسیس شروع کیں بلکہ اہم راہنماؤں، سرگرم کارکنوں اور ہمدردوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جن میں انیس قائم خانی، انیس احمد ایڈووکیٹ، رضا ہارون، وسیم آفتاب، ڈاکٹر صغیر احمدو یگر شامل ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان
فاروق ستار کی’ ایم کیو ایم پاکستان ‘ بائیس اگست کے بعد سےفاروق ستار کی سربراہی میں ’ایم کیو ایم پاکستان‘ کے روپ میں سامنے آئی ۔ سیاسی تجریہ نگاروں اور مبصرین کی نگاہ میں یہ ایم کیو ایم کا دوسرا دھڑا جو اب الطاف حسین کو اب اپنا سربراہ نہیں مانتا بلکہ فاروق ستار ہی اس کے موجودہ روح رواں ہیں۔ اسے باقی گروپوں کے مقابلے میں اس لئے طاقتور تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ بڑی تعداد میں پرانے اور اہم راہنماؤں کی اسے حمایت حاصل ہے ۔

ایم کیو ایم ’لندن ‘
الطاف حسین کے نہایت قریب ساتھی شمار ہونے والے راہنما ندیم نصرت،واسع جلیل اور مصطفیٰ عزیز آبادی ’ایم کیو ایم لندن‘ گروپ میں شمار کئے جاتے ہیں۔فاروق ستار گروپ ’لندن‘سے پہلے روز ہی لاتعلقی کا اعلان کرچکا ہے۔ لندن گروپ نے تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز سےمستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک کچھ ہی لوگ سامنے آئے ہیں ۔ امجد اللہ ، کنور خالد یونس اور ڈاکٹر ظفر عارف اس دھڑے کو لے کر کراچی میں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور پچھلے ہفتے بھی وہ ایک پریس کانفرنس کرچکے ہیں لیکن ہفتے کو انہیں دوسری پریسر سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔

ایم کیو ایم حقیقی
یہ ایم کیو ایم سے برسوں پہلے علیحدگی اختیار کرنے والا گروہ ہے جس کے راہنما آفاق احمد ہیں۔ کراچی کے ایک دو ہی علاقے ایسے ہیں جہاں یہ سرگرم نظر آتا ہے مثلاً لائنز ایریا اور لانڈھی وغیرہ۔ اگرچہ کئی برسوں تک سیاست میں رہنے کے باوجود یہ دھڑا کبھی ’طاقتور‘ نہیں ہوا لیکن دھڑوں کی گنتی میں یہ ایم کیو ایم کا تیسرا دھڑا شمار ہورہاہے۔

کراچی کے موجودہ سیاسی حالات میں تجزیہ نگار اور مبصرین اپنی شناخت ظاہر نہ کئے جانے کے خواہشمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی جماعت کے کئی دھڑے ہو جائیں تو اس جماعت کی طاقت بھی بٹ جاتی ہے اور شاید ایم کیو ایم کے ساتھ یہی ہورہا ہےْ

XS
SM
MD
LG