رسائی کے لنکس

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے


مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

میر تقی میر نے کہا تھا

مت تربتِ میر کو مٹاؤ

رہنے دو غریب کا نشان تو

کچھ یہی حال اردو ادب اور فلمی دنیا کی کئی اہم شخصیتوں کا ہوا جن کی یاد تو لاکھوں پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہے لیکن ظالموں نے ان کی قبروں کو مسمار کرتے ہوئے ان کی آخری یادگاروں کا نشاں بھی نہیں رہنے دیا۔ یہ سلوک جن نامور شخصیتوں کی تربتوں کے ساتھ کیا گیا ان میں مدھو بالا، محمد رفیع،نوشاد اور ساحر لدھیانوی شامل ہیں۔

ادب و فن کی دنیا کے ان رخشندہ ستاروں کو ممبئی کے جوہو قبرستان میں دفن کیا گیا تھا لیکن ان کی قبروں کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا ہے اور ان کے مقبرے منہدم کر دیے گئے ہیں تاکہ نئی میتوں کے لیے جگہ فراہم کی جاسکے۔

قبرستان کے نگران کاروں نے اس اقدام کو درست ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی شریعت کے مطابق ایسا کیا جاسکتا ہے۔جوہو گارڈن کے روبرو اس قبرستان میں کئی اہم شخصیات دفن ہیں جن میں محمد رفیع، مدھو بالا، نسیم بانو،ساحرلدھیانوی،نوشاد، علی سردار جعفری،خواجہ احمدعباس، جاں نثار اختر، طلعت محمود اور پروین بابی شامل ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ قدیم قبروں کے صفائے کی مہم کا آغاز پانچ سال قبل ہوا تھا۔نگران کار ٹرسٹ کے ذمے داروں نے 21 قبروں کے کتبوں کے انہدام کا آغاز کیا اور ان میں دفن افراد کی ہڈیوں کو ان کے خاندانوں کی علم و اطلاع کے بغیر ٹھکانے لگا دیا۔ان کے خاندان والوں سے کوئی مشورہ تک نہیں کیا گیا۔قبروں کو زمین کے برابر کرتے ہوئے کئی لاری مٹی ڈال کر سطح زمین کو تین فٹ اونچا کر دیا گیا تاکہ نئی قبروں کے لیے جگہ فراہم کی جائے۔اس قبرستان میں دفن ہونے والی آخری اہم شخصیت عامر خاں کے والد طاہر حسین ہیں جنہیں تین فروری کو دفن کیا گیا تھا۔

اہم شخصیتوں کی قبروں کی مسماری پر ان کے پرستاروں اور خاندان والوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔

اسی دوران اس قبرستان کے ٹرسٹ مسلم مجلس ٹرسٹ کے منتظم اصغر علی نے کہا کہ شرعی قانون کے مطابق انتقال کے بعد یادگاروں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ قبرستان میں جگہ کی قلت ہے اطراف کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ہر کوئی یہاں دفن کرنا چاہتا ہے۔جن فن کاروں کی قبروں کو مٹا دیا گیا ان کے رشتے دار برہم ہیں کہ متولیوں نے ان سے مشورہ بھی نہیں کیا۔مدھو بالا کی بہن مدھر بھوشن نے بتایا کہ ان کی بہن کی قبر سنگ مرمر میں تراشی گئی تھی جس پر آیات قرآنی کندہ تھیں اوران کے والد نے ماہر کاریگروں کی نگرانی میں کئی ماہ میں یہ قبر تیار کی تھی۔

ٹرسٹ کے معتمد قیوم خاں کا کہنا ہے کہ جگہ کی قلت کے سبب ہر سال پرانی قبروں کو زمین بوس کر دیا جاتا ہے۔دلیپ کمار اور سائرہ بانو نے بلدیہ کے حکام سے درخواست کی ہے کہ نئی قبروں کے لیے علیٰحدہ جگہ فراہم کی جائے۔سائرہ بانو کی والدہ نسیم بانو کی قبر اسی قبرستان میں ہے۔

محمد رفیع کے پرستار سال میں دو مرتبہ اس قبرستان کو جاتے ہیں۔ 24 دسمبر یوم پیدائش اور 31جنوری یوم وفات ہے۔ تاہم اب وہاں اس عظیم گلوکار کو خراجِ تحسین دینے اور ان کی قبر پر فاتحہ دینے کے لیے کوئی نشانی تک موجود نہیں ہے۔

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

XS
SM
MD
LG