رسائی کے لنکس

جب تک اصلاحات نہیں ہوں گی، لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملے گی: وزیرِ اطلاعات


تھنک فیسٹ 2024 میں شامل تجزیہ کار۔
تھنک فیسٹ 2024 میں شامل تجزیہ کار۔

نگراں وفاقی وزیرِ اطلاعات مرتضٰی سولنگی نے کہا ہے کہ ملک میں موجود تمام سیاسی جماعتیں شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ اُنہیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہا۔ لیول پلیئنگ فیلڈ صرف اشرافیہ کے پاس ہے۔ عوام کے پاس برابری کا موقع نہیں۔

لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں ’تھنک فیسٹ 2024‘ کے دوسرے روز ’فیسنگ دی پاپولر وِل‘ کے عنوان سے مباحثے میں گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں اصلاحات نہیں ہوتیں، عوام کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملے گی۔ فرق صرف کوکا کولا اور پیپسی کولا کا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں اتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے اِس بارے کسی کو کوئی ابہام نہیں ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ بطور نگراں وزیرِ اطلاعات شروع دِن سے کہہ رہے ہیں کہ ملک آئین کے مطابق چلے گا اور سب کی بھلائی اِسی میں ہے کہ آٹھ فروری کو انتخابات ہوں۔

ملکی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جو بھی نئی حکومت بنے گی اس کے سامنے اصل چیلنج سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ملک کی معاشی بقا کا بھی ہو گا۔

بلوچستان کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور متعلقہ فریق بیٹھ کر کوئی حل نکالیں۔ یہ کام نگراں حکومت کا نہیں ہے۔

تحریکِ انصاف کے انتخابی نشان پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عدالتی فیصلہ درست ہے۔ اگر کوئی جماعت اپنے ارکان کو حق نہیں دیتی کہ وہ جماعت کے اندر انتخابات کرے تو وہ جمہوری کیسے ہو گی۔

اُنہوں نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ عدالتی فیصلے پر قانونی ماہرین گفتگو کریں۔

گفتگو میں شریک نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سینئر رہنما افراسیاب خٹک نے کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات غیر یقینی ہیں جس کی وجہ پاکستان کا اِس وقت آئینی یا جمہوری نظام کے تحت نہ چلنا ہے۔

ان کے بقول ملک اِس وقت جرنیلی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں ملک میں انتخابات تاخیر سے ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صرف 1970 کے انتخابات صاف شفاف تھے جسے جرنیلوں نے تسلیم نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ مثبت نتائج وہی ہیں جو نتائج جرنیلوں کو قابلِ قبول نہیں ہیں۔

افراسیاب خٹک کا مزید کہنا تھا کہ اِس وقت کسی بھی سیاسی جماعت کو لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی عوام سے ووٹ مانگنے کی بجائے جی ایچ کیو سے ووٹ مانگ رہی ہیں۔

ان کے مطابق جو لوگ قانون شکنی کرتے ہیں جب تک اُن کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب نہیں ہو گی۔

تحریکِ انصاف کے انتخابی نشان کے معاملے پر گفتگو میں شریک سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی مخاصمت قاضی فائز عیسیٰ سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کو یہ کیس نہیں سننا چاہیے تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ملک کی سیاسی جماعتیں کمزور ہیں۔ اِسی لیے اپنے حقوق کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتی ہیں۔

’تھنک فیسٹ 2024‘ کے زیر اہتمام ایک اور بیٹھک انتخابات کے بعد کیا ہو گا؟ نتائج کی کیا توقع ہے؟ حکومت کیا ہو گی؟ میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار نجم سیٹھی نے کہا کہ راولپنڈی میں بیٹھے لوگ سوچ رہے ہیں کہ جب تک اُن کا دور ہے بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں رہیں گے۔

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ وفاق اور پنجاب میں حکومت اُن کی ہو گی۔ اِس کے بعد سوال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف ہوں گے یا شہباز شریف؟

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو سوچنا چاہیے کہ طاقت ور حلقوں کی وجہ سے وہ حکومت میں آ رہی ہے۔ طاقتور حلقوں کی بھی کوئی پسند نہ پسند ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ پنجاب عبد العلیم خان کے پاس ہو اور اسلام آباد دونوں بھائیوں میں سے ایک کے پاس آ جائے۔

گفتگو میں شریک سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی رہنے والے تجزیہ کار اور کالم نویس فہد حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں معاملات ایک سمت میں چل رہے تھے کہ اچانک ایک واقعہ ہوتا ہے اور معاملات دوسری طرف چل پڑتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک توقع ہے کہ مسلم لیگ (ن) مخلوط حکومت کی سربراہی کرے۔ دوسری توقع ہے کہ مسلم لیگ (ن) بڑی جماعت تو بن جائے لیکن لیڈ نہیں کر سکے گی۔

فہد حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد اُن کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی خواہش ہے کہ وہ پی پی پی کے بغیر حکومت بنائے جس کے بعد سوال یہ ہے کہ حزبِ اختلاف میں کون ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کے بعد دو بڑے دفاتر وزیرِ اعظم ہاؤس اور پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں کیا شریف خاندان کے بغیر بھی کوئی آ سکتا ہے؟ یہ بھی اہم ہے کہ آئندہ حکومت کا وزیرِ خزانہ کون ہو گا اور حزبِ اختلاف میں کون ہو گا۔

فہد حسین کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے لیے دو سوال اہم ہوں گے۔ پہلا یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کا بڑھتا ہوا کردار مزید کتنا بڑھے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ عمران خان کا مستقبل کیا ہو گا؟

XS
SM
MD
LG