رسائی کے لنکس

میانمار میں انسانیت سوز جرائم منظم طریقے سے جاری ہیں، اقوام متحدہ


فائل فوٹو - عارف اللہ، جس نے کہا کہ ان کے گاؤں کو جلا دیا گیا تھا اور میانمار کے فوجیوں نے رشتہ داروں کو ہلاک کر دیا تھا (فائل)
فائل فوٹو - عارف اللہ، جس نے کہا کہ ان کے گاؤں کو جلا دیا گیا تھا اور میانمار کے فوجیوں نے رشتہ داروں کو ہلاک کر دیا تھا (فائل)

اقوام متحدہ نے ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ میانمار میں منظم طریقے سے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب جاری ہے۔

عالمی ادارے کی طرف سے منگل کو منظر عام پر لائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار میں جاری تنازعات خواتین اور بچوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔

اس سالانہ رپورٹ میں' انڈیپنڈنٹ انویسٹی گیٹو میکانزم فار میانمار ' کے مرتب کردہ شواہد کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق میانمار کی سیکورٹی فورسز اور مسلح گروپوں کے ارکان ریپ سمیت جنسی اور صنفی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے خلاف بھی جرائم کیے۔

تفتیشی میکانزم کے سربراہ نکولس کومجیان نے اس بارے میں کہا

’’خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم سب سے سنگین بین الاقوامی جرائم میں سے ہیں، لیکن تاریخی طور پر ان کی کم ہی رپورٹنگ کی جاتی ہے اور ان کی تفتیش بھی نہیں کی جاتی‘‘۔

تین سال قبل کام شروع کرنے والے اس رپورٹنگ میکانزم نے تقریباً دو سو ذرائع سے 30لاکھ سے زیادہ معلومات اکٹھی کی ہیں۔ ان میں انٹرویو ، بیانات، دستاویزات، ویڈیوز، تصاویر، جغرافیائی منظر کشی اور سوشل میڈیا مواد شامل ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کی 'نسل کشی' کی داستان
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:01 0:00

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ میانمار میں بچوں پر تشدد کیا گیا، انہیں ، انہیں جبراً بھرتی کیا گیا اور غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور انہیں ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو ان کے والدین کے ساتھ کرنا مقصود تھا۔

اشاعت کے مطابق، "اس بات کے کافی اشارے ملے ہیں کہ فروری 2021 میں فوج کے قبضے کے بعد سے، میانمار میں منظم حملوں کی شکل میں بڑے پیمانے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے ۔

اس رپورٹ میں میانمار کی فوج کی طرف سے 25 جولائی 2022 کو جن چار افراد کی پھانسی دی گئی ، اس سزا کا ذکربھی شامل ہے۔

عالمی ادارے کا یہ تازہ ترین تجزیہ اس کلیئرنس آپریشنز کی پانچ سالہ یادگاری تقریب سے صرف دو ہفتے قبل جاری کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً 10 لاکھ روہنگیا افراد بے گھر ہوئے تھے۔

بھارتی کشمیر میں روہنگیا پناہ گزین خوف وہراس کا شکار
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:20 0:00

خیال رہے کہ روہنگیا کو میانمار کی راخائن ریاست میں کئی دہائیوں سے منظم امتیازی سلوک، بے وطنی اور ہدف بنا کر کیے گئےتشدد کا سامنا ہے۔ 2017 میں پرتشدد حملوں نے ایک اندازے کے مطابق سات لاکھ 45 ہزار روہنگیا جن میں چار لاکھ سے زیادہ بچے بھی شامل تھے، بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔

ملک بدر یا زبردستی بے گھر ہونے والے زیادہ تر روہنگیا اب بھی پناہ گزینوں کے یا اندرونی طور پر بے گھر افراد کے کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

روہنگیا مستقل طور پر میانمار میں محفوظ اور باوقار واپسی کی اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن رپورٹنگ میکانزم کے رہنما کومجیان نے وضاحت کی ہےکہ یہ مقصد اس وقت تک حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا جب تک کہ ان کے خلاف ہونے والے مظالم کے لیے جوابدہی نہ ہو، بشمول اس بات کے کہ ان جرائم کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ روہنگیا کی مسلسل حالت زار اور میانمار میں جاری تشدد ظاہر کرتے ہیں کہ انصاف کو یقینی بنانے ،جوابدہی کو آسان بنانے اورمزید مظالم کو روکنے میں یہ میکانزم کس قدر اہم کردار ادار کر سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG