رسائی کے لنکس

ملٹری ٹرائلز سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ؛ سندھ حکومت کی 'گمنام' اپیل تاحال معمہ


فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائلز کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی 'گمنام' اپیل کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ سندھ حکومت نے ایسی کوئی بھی اپیل دائر کرنے کی تردید کر دی ہے۔

اس خبر کو جمعے کو کچھ پاکستانی نیوز چینلز نے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا جس کے مطابق سندھ حکومت کی تیار کردہ درخواست سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے پاس پہنچ چکی ہے۔

تاہم سندھ حکومت کی جانب سے اگلے روز واضح تردید سامنے آ گئی اور کہا گیا کہ صوبے کی جانب سے ایسی کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔

وفاقی حکومت اور ملک کے دیگر تین صوبوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی ہیں اور سندھ حکومت کی وضاحت کے بعد اب سندھ واحد صوبہ ہے جس نے اس معاملے پر اپیل دائر نہیں کی۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کا نام استعمال کرکے وہ اپیل کس نے اور کیوں تیار کی تھی؟ اور اس کا مقصد کیا تھا؟

ڈرافٹ اپیل پر وکیل کا نام جہانزیب اعوان درج ہے جو بارایٹ لا ہونے کے ساتھ کراچی میں آسٹریلیا کے اعزازی کونسل جنرل بھی ہیں۔

انہیں یہ اپیل تیار کرنے کے لیے کس نے کہا تھا؟ یہ جاننے کے لیے جہانزیب اعوان کو متعدد فون اور پیغامات بھی بھیجے گئے لیکن خبر فائل ہونے تک ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔


مجوزہ اپیل میں کیا کہا گیا تھا؟

مجوزہ اپیل میں درخواست گزار نے سپریم کورٹ کے گزشتہ ماہ سنائے گئے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے نو اور 10مئی 2023 کو ہونے والی ہنگامہ آرائی میں مبینہ طور پر ملوث 103 گرفتار عام شہریوں کا ٹرائل ملٹری کورٹ کے بجائے کریمنل کورٹ میں کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس فیصلے میں ان گرفتار افراد کے ٹرائل کے لیے قائم کی گئی ملٹری کورٹس کو بھی خلافِ آئین قرار دیا گیا تھا۔

جہانزیب اعوان نے مجوزہ اپیل میں مؤقف اختیار کیا کہ بینچ نے آئین کے آرٹیکل 184 کی غلط تشریح کرتے ہوئے فیصلہ سنایا جب کہ آرمی ایکٹ کی بعض دفعات کو آئین کے خلاف قرار دینے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔

اپیل میں لکھا گیا تھا کہ نو اور 10 مئی کو پوری قوم نے ایسے واقعات دیکھے تھے جس میں فوجی تنصیبات، اداروں اور ملک بھر میں اہل کار حملے کی زد میں آئے تھے۔

اپیل کے مطابق یہ حملے بظاہر منصوبہ بندی کے تحت کرائے گئے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلح افواج کے اندر دراڑ پیدا کرنے کے لیے فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کو کمزور کیا جائے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے اپیل دائر کرنے کا کیا طریقۂ کار ہے؟

سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ اسے کسی بھی معاملے میں سپریم کورٹ میں اپیل میں جانا ہے تو وہ وزیر اعلیٰ سندھ کی اجازت سے ہی ایسا کر سکتی ہے۔

اُن کے بقول اس کے لیے طریقۂ کار یہ ہو گا کہ محکمہ قانون کی جانب سے چیف سیکریٹری کے ذریعے وزیرِ اعلیٰ کو سمری بھیجی جائے گی اور اُن کی منظوری سے ہی یہ معاملے آگے بھجوایا جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں وزیرِ اعلیٰ بھی تحریری طور پر ہدایت دینے کا پابند ہوتا ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس اپیل کی تیاری میں اس طرح کے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت یا صوبائی محکمہ قانون کی جانب سے اپیل کا ڈرافٹ تیار ہی نہیں ہوا تھا۔

ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیسے ہوتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:34 0:00

انہوں نے مزید کہا کہ دیگر درخواستوں کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ فیصلے کے خلاف دائر دیگر تین صوبوں اور وفاق کی اپیلوں کا سیاق و سباق بھی مذکورہ ڈرافٹ پٹیشن کے ساتھ ملتا جلتا ہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مصنف ایک ہی ہے۔

محکمۂ قانون اپیل دائر کرنے کے لیے دباو کا شکار ہے؟

ادھر سندھ حکومت کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نگراں وزیرِ اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر نے اس معاملے پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے اور اس خبر کی سختی سے تردید جاری کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

محکمہ قانون کے ایک افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اپیل دائر کرنے کے لیے "باہر" سے ان پر شدید دباؤ تھا۔ لیکن محکمے کا مؤقف تھا کہ چوں کہ صوبے کے دائرہ اختیار میں کوئی ملٹری کورٹ اس وقت کام نہیں کر رہی لہذا صوبے کو اس معاملے میں اپیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے آفس سے ایسی کوئی اپیل سپریم کورٹ کو فائل کے لیے ارسال ہی نہیں کی گئی۔

'خفیہ ہاتھ، سندھ حکومت کی جانب سے اپیل دائر کرنا چاہتے ہیں'

ادھر سپریم کورٹ میں رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلے تو یہ کیس غلط رپورٹنگ ہے۔

اُن کے بقول صوبائی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی اپیل نہ تو فائل ہوئی اور نہ ہی اسے پٹیشن نمبر الاٹ کیا گیا جس کے بعد یہ سمجھا جاتا ہے کہ رسمی طور پر اپیل دائر کر دی گئی ہے۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ خفیہ ہاتھ حکومت سندھ کی جانب سے اپیل دائر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایسے میں وزیر اعلیٰ سندھ خود اس میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے اور یوں یہ کوشش بظاہر ناکام ہوئی ہے۔

دوسری جانب سینیٹ اجلاس میں گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اور ملٹری کورٹس کے قیام کے حق میں منظور کی گئی قرارداد پر پیر کے روز بھی بحث جاری رہی۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے میاں رضا ربانی، سینیٹر طاہر بزنجو اور دیگر نے شدید مخالفت کی اور اسے آئین اور جمہوریت کے خلاف سازش سے تعبیر کیا۔

سینیٹر دلاور خان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ مسلح افواج کے خلاف تشدد کے ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی فریم ورک کے اندر اور قانونی نظام کے عین مطابق ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG