رسائی کے لنکس

اسمبلی کی تقریر کو عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا: نواز شریف


سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف نیب کی طرف سے دائر کردہ نیب کے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف نے پوچھے گئے 151 سوالات میں سے 45 کے جوابات دے دیے ہیں اور جمع کروائے گئے جواب میں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کو کسی عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی سربراہی میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ریفرنس کے دوران نیب کی طرف سے پیش کردہ 151 سوالات میں سے 45 کے جواب جمع کرائے۔

سابق وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ وہ ہل میٹل اور العزیزیہ کے کبھی مالک نہیں رہے، ’’العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی۔ میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا‘‘۔

انہوں نے کہا کہ قوم سے خطاب میں کبھی نہیں کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کی فروخت سے میرا کبھی کوئی تعلق رہا۔ ’’قومی اسمبلی سے خطاب میں العزیزیہ اسٹیل مل کے قیام سے متعلق میرا بیان ذاتی معلومات پر مشتمل نہیں تھا، میں نے وہ تقریر حسین نواز کی جانب سے حاصل ہونے والی معلومات پر کی‘‘۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کو استثنیٰ حاصل ہے جو کسی بھی عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کی جا سکتی‘‘۔

رقوم کی منتقلی کے حوالے سے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’یہ درست ہے کہ حسین نواز کے اکاوٴنٹ سے میرے اکاوٴنٹ میں ڈالرز اور یوروز کی صورت میں رقوم منتقل ہوئیں۔ اس حوالے سے گواہ کی پیش کی گئی دستاویزات اصل کی نقول ہیں۔ العزیزیہ اور ہل میٹل سے میرے اکاوٴنٹ میں آنے والی رقوم ٹیکس ریکارڈ میں ظاہر ہیں‘ه۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ہل میٹل سے 59 ملین کی رقم براہ راست میری بیٹی مریم صفدر کے اکاوٴنٹ میں آنے سے متعلق نہیں جانتا، نیب کے طلبی کے نوٹسز آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر تھے‘‘۔

نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لاء لگایا، مارشل لاء کے دوران کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتا تھا، 12 اکتوبر 1999 سے مئی 2013 تک کسی عوامی عہدے پر نہیں رہا۔

بیان ریکارڈ کرانے کے دوران معاون وکیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میاں صاحب نشست پر بیٹھ جائیں‘‘۔ ہم جواب تحریر کرا دیتے ہیں جس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ اگر جواب یو ایس بی میں ہے تو جمع کرا دیں، جج ارشد ملک نے نواز شریف سے جوابات کی کاپی لے لی اور کہا کہ کوئی بات سمجھ نہ آئی تو میں پوچھ لوں گا۔

نواز شریف کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ ’’یہ تفتیشی کی رائے تھی کہ میں شریف خاندان کا سب سے با اثر شخص تھا، میرے والد میاں شریف آخری سانس تک خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیمٹمنٹس اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن میں نے ہی جمع کروائے تھے، 2001 سے 2008 تک میں جلا وطن تھا جب کہ حسین نواز کے جمع کروائے گئے ٹیکس سے متعلق جواب دینے کا مجاز نہیں۔ تاہم، میں نے اپنے اِنکم ٹیکس ریٹرن میں تمام اثاثے اور ذرائع آمدن ظاہر کیے۔

نواز شریف نے 45 سوالات کے جواب ریکارڈ کروائے۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ بیان پر نواز شریف کے دستخط لینے ہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی بیان بھجوائیں گے کہ یہاں تک بیان ریکارڈ ہو چکا ہے، جو جواب تسلی بخش نہ ہوئے وہ دوبارہ لکھوانے پڑیں گے۔

اس موقع پر نواز شریف نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 5 سوالات کے جوابات خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دوں گا۔ لہٰذا، وقت دیا جائے۔ کچھ سوالات پیچیدہ ہیں۔ ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر تین ریفرنس دائر کیے گئے تھے، جن میں سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آچکا جس کے مطابق نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ اس کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں ضمانت دے رکھی ہے جس کے خلاف نیب کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

نواز شریف کے خلاف ہل میٹل اور گلف سٹیل کے ساتھ العزیزیہ ریفرنس دائر کیا گیا ہے، جس کی سماعت آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔

XS
SM
MD
LG