رسائی کے لنکس

حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا فیصلہ معطل


اسلام آباد ہائی کورٹ نے حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی پر نادرا سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا ہے۔ (فائل فوٹو)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی پر نادرا سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا ہے۔ (فائل فوٹو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حزب اختلاف کی جماعت جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔

عدالت نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے شہریت منسوخی پر دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا ہے۔ جب کہ نادرا اور وزارت داخلہ کو تاحکم ثانی حافظ حمد اللہ کے خلاف کسی اقدام سے بھی روک دیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حافظ حمد اللہ کی درخواست پر سماعت کی۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے علی رانا کے مطابق سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ "کیا حافظ حمد اللہ کے بچے بھی ہیں اور ان کے پاس بھی پاکستانی شناختی کارڈ ہے؟

'سینیٹر بنا تو خفیہ اداروں کو غیر ملکی ہونے کا کیوں پتا نہیں چلا؟'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:01 0:00

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ جی ان کے بچوں کے پاس بھی شناختی کارڈ ہیں اور حافظ حمد اللہ کا ایک بیٹا فوج میں بھی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو ماں اپنے بیٹے کو وطن پر قربان کرنے بھیج دے اس کے شوہر کی شہریت پر کوئی شک ہو سکتا ہے؟

عدالت نے مختصر سماعت کے بعد حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کے نادرا کے فیصلے کو معطل کر دیا۔

حافظ حمد اللہ نے اپنی شہریت منسوخ ہونے کے معاملے پر وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد افغانستان ویزا لے کر گئے تھے اور وہ وہاں گرفتار بھی ہوئے۔ انہیں افغان فورسز نے کہا کہ تم پاکسان کے انٹیلی جنس اداروں کے ایجنٹ ہو۔ اور اب میرے ملک کے قومی ادارے مجھے کہتے ہیں کہ آپ پاکستانی شہری نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد کے بارے میں نہیں کہا جاتا کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں۔ میرے خاندان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاتا۔ صرف حافظ حمداللہ کو نان نیشنل قرار دیا جاتا ہے۔

حافظ حمداللہ نے کہا کہ ماضی میں مولانا محمود اور فاطمہ جناح کو بھی غدار قرار دیا گیا۔ ان کا جرم کیا تھا۔ فاطمہ جناح جنرل ایوب کے خلاف جمہوریت کے لیے کھڑی ہوئی تھیں اور یہی ان کا جرم تھا۔

سابق سینیٹر نے مزید کہا کہ بیت اللہ محسود، الیاس کشمیری، حافظ سعید جو کہ بلیک لسٹ بھی ہی اور مسعود اظہر و دیگر کی شہریت تو اب تک منسوخ نہیں کی گئی۔ یہ جو ڈرامے ہیں، قوم انہیں سمجھتی ہیں۔

ان کے بقول وہ 2002 میں جب رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تو کیا اس وقت اداروں کو معلوم نہیں ہوا کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں؟

انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں 2012 میں جب سینیٹ کا رکن منتخب ہوا تو کیا اس وقت سب سوئے ہوئے تھے؟ اگر میں پاکستان کا شہری نہیں تھا تو سینیٹر کیسے بنا؟

یاد رہے کہ نادرا نے 26 اکتوبر کو جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما حافظ حمد اللہ کو غیر ملکی شہری قرار دیتے ہوئے ان کا قومی شناختی کارڈ منسوخ کر کے ضبط کر لیا تھا۔

XS
SM
MD
LG