رسائی کے لنکس

نظامِ شمسی کیسے قائم ہوا؟ ناسا کی ایک دہائی طویل تحقیق کا مشن سیارہ مشتری روانہ


ناسا کے خلا میں روانہ کیے گئے جہاز کا نام ’لوسی‘ ہے۔ اسے فلوریڈا میں واقع کیپ کناویرال اسپیس اسٹیشن سے روانہ ہوا ہے۔ اس خلائی جہاز کا مشن 12 برس طویل ہو گا۔ یہ اپنے مشن کے دوران چھ ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گا۔
ناسا کے خلا میں روانہ کیے گئے جہاز کا نام ’لوسی‘ ہے۔ اسے فلوریڈا میں واقع کیپ کناویرال اسپیس اسٹیشن سے روانہ ہوا ہے۔ اس خلائی جہاز کا مشن 12 برس طویل ہو گا۔ یہ اپنے مشن کے دوران چھ ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گا۔

امریکہ کے خلائی ادارے ‘ناسا‘ نے خلائی جستجو میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے سیارہ مشتری کے سیارچوں کی تحقیق کے لیے ایک مشن روانہ کیا ہے۔

یہ خلائی جہاز جس کا نام ’لوسی‘ ہے ہفتے کو ناسا کے فلوریڈا میں واقع کیپ کناویرال اسٹیشن سے روانہ ہوا ہے۔ اس خلائی جہاز کا مشن 12 برس طویل ہو گا اور یہ اپنے مشن کے دوران چھ ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گا۔

لوسی کا مقصد سیارہ مشتری کے ٹروجن کہلائے جانے والے سیارچوں میں سے سات کے قریب اڑان بھرنا ہے۔ مشتری کے مدار میں ہزاروں سیارچے زیرِ گردش ہیں۔

ان سیارچوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام شمسی کی ابتدا سے موجود ہیں۔

محققین کا خیال ہے کہ وہ ان کے ذریعے نظام شمسی کے ارتقا سے متعلق اہم معلومات حاصل کر سکیں گے۔

اس مشن میں کام کرنے والے سائنس دان ٹام اسٹیٹلر نے وائس آف امریکہ کو آگاہ کیا کہ یہ سیارچے نظام شمسی کے قائم ہونے کے عمل کے دوران مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون جیسے بڑے سیاروں کا باقی ماندہ حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ باقی نظامِ شمسی، جس میں زمین بھی شامل ہے، اس دوران بڑے سیاروں کے وجود میں آنے سے بڑی حد تک متاثر ہوا۔ ان کے مطابق یہ ٹروجن سیارچے اس زمانے سے متعلق اہم معلومات رکھتے ہیں۔

ناسا کی سائنس دان کارلی ہاوٹ نے ’ناسا ٹی وی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ یہ ٹروجن سیارچے مشتری کے مدار میں کیسے شامل ہوئے۔ اس بارے میں دو نظریات ہیں۔ ایک یہ نظریہ ہے کہ یہ نظامِ شمسی میں بہت دور قائم ہوئے اور پھر دوسرے سیارچوں سے ٹکرا کر سورج کے قریب آئے اور ایسے ہی مشتری کے مدار میں شامل ہوئے۔

ان کے مطابق دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ مشتری کے قریب ہی قائم ہوئے تھے اور ان میں ویسی ہی معدنیات پائی جاتی ہیں جیسی مشتری کے مختلف چاند اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔

اس مشن حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ سائنس دان اس بارے میں معلومات حاصل کر سکیں گے کہ یہ سیارچے کن مادوں سے بنے ہیں۔ اس سے ناسا کو یہ معلومات بھی ملیں گی کہ یہ ابتدائی طور پر کہاں قائم ہوئے تھے۔

امریکی کمپنی ’لاک ہیڈ مارٹن اسپیس‘ کے ایک انجینئر وِل سانتیاگو نے ’ناسا ٹی وی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم وقت میں پیچھے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول یہ سیارچے ٹائم کیپسول ہیں۔

لوسی کا نام 1974 میں ایتھوپیا میں ملنے والے ایک بہت ابتدائی دور کے انسان کے ڈھانچے کے نام پر رکھا گیا ہے۔

ناسا کا کہنا ہے کہ جیسے اس ڈھانچے سے انسان کے ارتقا کے بارے میں اہم معلومات ملی تھیں۔ ایسے ہی خلائی جہاز ’لوسی‘ کے ذریعے نظام شمسی کی ارتقا کے بارے میں اہم معلومات ملنے کا امکان ہے۔

خلائی جہاز ’لوسی‘ اپنے مشن کے دوران پہلے زمین کے تین چکر لگائے گا۔

یہ چکر لگانے کا مقصد زمین کی کششِ ثقل کو استعمال کرتے ہوئے اسے خلا میں ایک زور دار دھکا دینا ہے۔

اس مشن کے دوران مریخ اور مشتری کے درمیان واقع سیارچوں میں سے ایک کا مشاہدہ بھی کیا جائے گا۔

ناسا کے مطابق اس کا مقصد اس مشن پر پہنچنے سے پہلے ایک آزمائش کرنا ہے۔

XS
SM
MD
LG