رسائی کے لنکس

حزب اختلاف کی بھرپور مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی میں منی بجٹ منظور


قومی اسمبلی کی عمارت (فائل فوٹو)
قومی اسمبلی کی عمارت (فائل فوٹو)

پاکستان کی قومی اسمبلی نے ضمنی مالیاتی بل 2021 (منی بجٹ) کی کثرت رائے سے منطوری دے دی ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے رات گئے تک جاری رہنے والے اجلاس میں ضمنی مالیاتی بل کی شق وار منظوری دی گئی۔

بل کی منظوری کا عمل شروع ہوا تو حزب اختلاف کے اعتراض پر ووٹنگ کرائی گئی تو منی بجٹ کے حق میں 168 جبکہ اس کی مخالفت میں 150 ووٹ ڈالے گئے۔

حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ ماہ کے آخر میں ضمنی مالیاتی بل اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق بلز قومی اسمبلی میں پیش کیے تھے۔

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں منی بجٹ کی منظوری کی حکمت عملی طے کی گئی۔

دریں اثنا قومی اسمبلی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری کا بل بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ حزب اختلاف نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ملکی معاشی خودمختاری کو عالمی ادارے کے سامنے کھو دینے کے مترادف قرار دیا۔

حزب اختلاف نے منی بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور ایوان کے اندر اور باہر احتجاج بھی کیا۔

حکومت نے حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ متعدد ترامیم کو مسترد کردیا۔ پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کو منظوری سے قبل عام کیا جائے، تاکہ عوام کو معلوم ہوسکے کہ اس کے نتیجے میں ان کی ضروریات زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم، وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے اسپیکر سے بل پر ووٹنگ کروانے کی استدعا کی۔

البتہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتایا کہ حکومت نے ضمنی مالیاتی بل میں بعض ترامیم لائی ہیں جس کے نتیجے میں بچوں کے دودھ، ڈبل روٹی، لیپ ٹاپ اور سولر انرجی کی مصنوعات پر ٹیکس چھوٹ ختم نہیں کی جائے گی۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ضمنی مالیاتی بل پیش کرنے کا مقصد معیشت کو دستاویزی شکل میں لانا ہے۔

خیال رہے کہ منی بجٹ کے ذریعے حکومت نے 350 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کیا ہے جس پر حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اس سے ملک میں پہلے سے جاری مہنگائی کی لہر میں اضافہ ہوگا۔

یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی ٹیکسوں میں عائد چھوٹ ختم کرنے اور مزید ٹیکس عائد کرنے سے مشروط کر رکھی ہے اور مذکورہ بل میں انہی چیزوں کا ذکر ہے۔

ضمنی مالیاتی بل کی منظوری میں تاخیر کے باعث حکومتِ پاکستان کی درخواست پر آئی ایم ایف نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رواں ہفتے ہونے والا اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔

حکومت کو امید ہے کہ ضمنی مالیاتی بل کی منظوری سے آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر قرض کی قسط آئندہ ماہ جاری ہوجائے گی۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں منی بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ "منی بجٹ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا۔ اس لیےحکومت اسے واپس لے کرترامیم کے ساتھ پیش کرے تو اپوزیشن اس بل کی حمایت کر سکتی ہے۔"

حکومت نے 30 دسمبر کو وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد مالیاتی ترمیمی بل 22-2021 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے اپوزیشن جماعتوں نے 'منی بجٹ' قرار دیا تھا۔

قومی اسمبلی میں پیش کردہ مالیاتی ترمیمی بل کے مطابق حکومت نے درآمد شدہ موبائل فونز پر اضافی 17 فی صد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس بل کے مطابق سونے اور چاندی پر ٹیکس ایک فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد، زرعی بیج، پودوں، آلات اور کیمیکل پر پانچ فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد سیلز ٹیکس لاگو ہو گا۔

ساشے میں فروخت ہونے والی اشیا کا ٹیکس آٹھ فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد، درآمدی گوشت، غیر ملکی سرکاری تحائف اور عطیات پر بھی 17 فی صد ٹیکس لاگو ہو گا۔

حکومت نے ڈیوٹی فری شاپس سمیت بیکریوں، ریسٹورانٹ اور فوڈ چین پر بھی 17 فی صد سیلز ٹیکس نافذ کیا ہے۔

درآمد شدہ مرغی کے گوشت، پراسیس شدہ دودھ، پیک دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی اور بالائی پر ٹیکس 10 فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد کرنے کی تجویز ہے۔​

بزنس ٹو بزنس رقم منتقلی پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 17 فی صد کرنا، ادویات کے خام مال پر 17 فی صد جی ایس ٹی اور پیکنگ میں فروخت ہونے والے مصالحوں پر 17 فی صد سیلز ٹیکس لاگو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مالیاتی ترمیمی بل میں پرچون فروشوں کا ٹیکس 10 فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد کرنے کی تجویز ہے۔ مائننگ اور پولٹری سیکٹر کے لیے درآمدی مشینری پر بھی 17 فی صد ٹیکس لاگو ہو گا۔

XS
SM
MD
LG