رسائی کے لنکس

قومی اسمبلی سے فنانس بل 22-2021 کثرتِ رائے سے منظور


پارلیمنٹ کی عمارت، فائل فوٹو
پارلیمنٹ کی عمارت، فائل فوٹو

قومی اسمبلی نے فنانس بل برائے 22-2021 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے جس کے بعد آئندہ مالی سال کا بجٹ منظور کر لیا گیا ہے۔

فنانس بل پیش کرنے سے قبل بل پیش کرنے کی تحریک میں حکومت نے 138 ووٹوں کے مقابلے میں 172 ووٹوں کے ذریعے اپوزیشن کو شکست دی۔ بعد میں شق وار فنانس بل کی منظوری دی گئی، اپوزیشن کی بجٹ میں 30 ترامیم مسترد کر دی گئیں۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں وزیرِ اعظم عمران خان، شریک چیئرمین پی پی پی آصف علی زرداری، چیئرمین پی پی بلاول بھٹو سمیت دیگر اپوزیشن اراکین نے شرکت کی۔ تاہم قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

اجلاس شروع ہونے کے بعد وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے فنانس ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا تو اپوزیشن کی جانب سے بل کی شدید مخالفت کی گئی۔ جس کے بعد فنانس بل پیش کرنے کی تحریک پیش کی گئی جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔

تحریک کے حق میں 172 جب کہ مخالفت میں 138 ووٹ آئے۔ جس کے بعد فنانس بل کی شق وار منظوری دی گئی۔

اگلے چند سالوں میں نچلی سطح پر خوشحالی ہو گی، شوکت ترین

وزیرخزانہ شوکت ترین نے فنانس بل کی منظوری سے قبل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ میں ڈیری مصنوعات، انٹرنیٹ، ایس ایم ایس، پراویڈنٹ فنڈ پر ٹیکس نہیں لگا رہے۔ ہم نے کپاس پر ٹیکس نہیں لگایا، لیکن کپاس کی جننگ فیکٹری سے ٹیکس لیا جائے گا۔

وزیر خزانہ شوکت ترین قومی اسمبلی میں تقریر کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین قومی اسمبلی میں تقریر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ساڑھے اٹھارہ ہزار ارب روپے کی تجارت ہوتی ہے اور حکومت صرف تین ہزار ارب روپے کی تجارت پر ٹیکس لے رہی ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ 74 سال میں پہلی مرتبہ اس حکومت نے غریب کے لیے روڈ میپ دیا ہے۔ 40 لاکھ غریب لوگوں کو گھر ملیں گے۔ صحت کارڈ ملیں گے اور سہولیات ملیں گی۔ ملکی سطح پر افراط زر اب بھی سات فیصد ہے، تاہم خوراک کی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی صرف زراعت کی ترقی سے ممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چینی اور دیگر اشیا ضروری درآمد کرنی پڑتی ہیں اور عالمی منڈی میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 10 برس میں اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے۔

شوکت ترین نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو خسارہ چھوڑ کر گئے اس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ اگلے چند سالوں میں نچلی سطح پر خوشحالی ہو گی۔ آپ سیاست نہ کریں، میرٹ پر بات کریں اور مجھ پر میرٹ پر تنقید کریں میں ٹھیک کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ کروڑ افراد جان بوجھ کر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ جان بوجھ کر ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔

جبر اور ظلم سے نجات تک مزاحمت جاری رکھیں گے۔ علی وزیر

قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے لیے رکن اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے تھے ۔ اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علی وزیر نے کہا کہ ہم ظلم اور جبر کے خلاف کھڑے ہیں، خواہ وہ وردی میں ہو یا بغیر وردی ، گڈ ہو یا بیڈ ۔ ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی قوم کو جبر اور ظلم سے نجات دلانے تک اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔

رکن قومی اسمبلی علی وزیر، فائل فوٹو
رکن قومی اسمبلی علی وزیر، فائل فوٹو

افغانستان کی صورت حال پر تشویش ہے، آصف علی زرداری

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی بجٹ اجلاس کے لیے ایک عرصہ بعد اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے میڈیا کے ایک سوال پر کہا کہ ہمیں افغانستان کی صورت حال پر بہت تشویش ہے اور جو افغانستان میں ہو گا اس کے اثرات پاکستان پر ہوں گے۔ اس بارے میں سب کو مل کر بات کرنی چاہیے۔ حکومت گرانے کے سوال پر آصف زرداری نے کہا کہ حکومت ہے کہاں جو گر جائے گی۔ مانگے تانگے کی حکومت ہے جو گھسٹ رہی ہے۔

حکومت کی باتوں اور دستاویزات میں تضاد ہے۔ عائشہ غوث بخش

مسلم لیگ (ن) کی رہنما ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی باتوں، دعوؤں اور فنانس بل میں تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئل ریفائنریوں کو جو مراعات دی گئی تھی وہ واپس لے لی گئی ہیں۔ ٹیکسیشن کے نظام کو سہل بنانا پڑے گا کیونکہ ملک میں کاروبار کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑھ جائیں گے اور انکم ٹیکس سے متعلق ترامیم ٹیکسیشن کے نظام کو مشکل بنا دیں گی۔

رہنما (ن) لیگ خرم دستگیر نے کہا کہ اگلے سال حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل نہیں کر سکے گی۔ حکومت صرف غریب اور متوسط طبقے کے گرد پھندا تنگ کر رہی ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس ملک کا کاروباری طبقہ پہلے ہی نیب سے تنگ تھا، اب ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دیے جا رہے ہیں۔ اب کاروباری لوگ کہیں گے خدا کا واسطہ ایف بی آر سے بچاؤ اور نیب کے حوالے کر دو۔ پہلے ایف بی آر جرمانہ عائد کرتا تھا، اب اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے۔ ایسے لوگوں کو اختیارات دیے جا رہے ہیں جن کا ریکارڈ اچھا نہیں۔

فنانس بل کی شق وار منظوری کے دوران حکومت کے صرف 50 سے 60 اراکین موجود تھے جب کہ اپوزیشن کے ارکان بھی بہت کم تھے۔

وائس ووٹ کے ذریعے فنانس بل کی تمام شقوں کی منظوری حاصل کی گئی اور اپوزیشن کی تمام 30 تجاویز مسترد کر دی گئیں۔

قومی اسمبلی اجلاس بدھ کی صبح تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں امکان ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی خطاب کریں گے۔

XS
SM
MD
LG