رسائی کے لنکس

وفاقی بجٹ سے آئی ٹی سیکٹر ناخوش کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے مالی سال 22-2021 کے لیے 8 ہزار 487 ارب روپے کا وفاقی بجٹ 11 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیا، جس پر اپوزیشن کی طرف سے سخت تنقید کی گئی ہے جب کہ متعدد معاشی ماہرین کی طرف سے کرونا وبا کے باعث پیدا صورتِ حال میں قدرے بہتر بجٹ گردانہ جا رہا ہے۔ البتہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ اس بجٹ سے ںاخوش نظر آتا ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں جہاں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے رواں مالی سال کی نسبت 37 فی صد اضافے کے بعد دو ہزار 135 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں وفاقی پی ایس ڈی پی کی 900 ارب جب کہ صوبوں کی ایک ہزار 235 ارب روپے کی رقم شامل ہے۔ وہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام ڈویژن کے لیے 936 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

وفاقی بجٹ پر آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے حکومت کو دی گئی سفارشات کو بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا، جب کہ ٹیلی کام سیکٹر کے ماہرین کے مطابق، حکومت نے بجٹ سے پہلے ہی سیکٹر کو بہت زیادہ مراعات دے دی تھیں۔

آئی ٹی بمقابلہ ٹیلی کام انڈسٹری

پاکستان اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال میں مئی تک آئی ٹی سیکٹر میں 55 اعشاریہ چھ ملین (پانچ کروڑ 56 لاکھ) ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) پاکستان میں آئی ہے۔ جس میں سوفٹ ویئر ڈویلپمنٹ کی مد میں 13 اعشاریہ چھ ملین (ایک کروڑ 36 لاکھ) ڈالر جب کہ ہارڈ ویئر ڈویلپمنٹ کی مد میں صفر اعشاریہ ایک ملین ڈالر کی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری آئی۔

علاوہ ازیں آئی ٹی سروسز کی مد میں 41 اعشاریہ نو ملین (چار کروڑ 19 لاکھ) ڈالر کی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری رواں مالی سال کے مئی کے مہینے تک پاکستان میں آئی۔

دوسری جانب اسی عرصے میں ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر میں 37 اعشاریہ چار ملین (تین کروڑ 74 لاکھ) ڈالر کی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں آئی ہے۔

آئی ٹی سیکٹر کو حاصل ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ

وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کی طرف سے رواں سال 20 مارچ کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آئی ٹی سیکٹر کو سال 2025 تک حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی تھی۔

حکومت کی جانب سے اس ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مقصد طویل مدت میں سیکٹر کا سائز بڑھانا بتایا گیا تھا۔

پاکستان سوفٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن اینڈ سروسز فار آئی ٹی اینڈ آئی ٹیز (پاشا) کی رپورٹ کے مطابق مالی سال کے وسط میں مذکورہ ٹیکس نظام میں تبدیلی نہ صرف غیر یقینی کی صورتِ حال پیدا کرتی ہے بلکہ یہ حکومت کی جانب سے معاملات کو سمجھنے میں سنجیدگی سے متعلق سوالات بھی اٹھاتی ہے۔

پاشا کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق رواں برس میں آئی ٹی صنعت کی نمو نے روایتی سیکٹرز کی نمو کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور سال در سال آئی ٹی کی برآمدات میں 24 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق آئی ٹی سیکٹر کی گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والی برآمدات میں 100 فی صد حصہ بڑھا ہے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق سیکٹر کو اگر 2025 تک چھوٹ جاری رہتی تو ماضی کی روایات کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں بھی یکساں نمو جاری رہنے کی توقع تھی اور حکومتی اقدام سے رواں سال شرح نمو سالانہ 25 فی صد تک نیچے جاسکتی ہے۔

آئی ٹی سیکٹر کے تحفظات

پاشا نے وفاقی بجٹ پیش کیے جانے سے قبل حکومت کو آئی ٹی سیکٹر سے متعلق 13 سفارشات پیش کی تھیں جن میں سے 11 سفارشات کو بجٹ میں مکمل طور پر رد جب کہ ایک سفارش پر پیش رفت واضح نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ایک سفارش کے نتیجے میں صرف دو سروسز کو مذکورہ کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔

ٹیکس چھوٹ کی واپسی

پاشا کے چیئرمین برکان سعید کا کہنا ہے کہ آئی ٹی سیکٹر کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سے سیکٹر کو 29 فی صد ٹیکس نہیں دینا پڑتا تھا، جس کی وجہ سے انڈسٹری خود ہی نشو نما پا رہی تھی۔

برکان کا کہنا تھا حکومت کے مطابق آئی ٹی سیکٹر کو اب بھی جھوٹ حاصل ہے لیکن اب حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو اختیار دیا ہے کہ وہ ٹیکس چھوٹ کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔

ان کے بقول، ایسی صورتِ حال میں کمشنر کوئی بھی قدغن لگا کر کسی بھی کمپنی کی ٹیکس چھوٹ ختم کر سکتا ہے۔

کمشنرز کے نوٹسز کے لیے ہائی پاور کمیٹی

برکان سعید کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس کمشنرز کی طرف سے آئی ٹی کمپنیوں کو ایسے نوٹسز بھیجے جاتے ہیں جس میں، ان کے بقول، انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ چنانچہ، انہوں نے سفارش کی تھی کہ ایک ایسی ہائی پاور (اعلیٰ اختیار کی حامل) کمیٹی بنائی جائے جس میں وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کے لوگ شامل ہوں اور وہ ان نوٹسز کو دیکھ سکیں۔

البتہ، ان کے بقول، اس سفارش کو بھی بجٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

سروسز کی تعریف

چیئرمین پاشا برکان سعید کے بقول، آئی ٹی سروسز کی فہرست میں شامل سروسز مہیا کرنے والی کمپنیوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ آیا اس فہرست میں شامل سروسز کی تعریف کے مطابق سروسز فراہم کرتی ہیں۔

برکان نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے خود سے منتخب کردہ دو سروسز کو اس فہرست میں شامل کر دیا ہے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ اس نے آئی ٹی سیکٹر کو ریلیف دیا ہے۔

آئی ٹی سیکٹر کو صنعت کا درجہ

برکان سعید کا کہنا تھا کہ سیکٹر کو صنعت کا درجہ ملنے سے سامان درآمد کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور بجلی انڈسٹری ریٹس پر دستیاب ہوتی ہے۔

البتہ، ان کے بقول، یہ سب ان کے لیے معنیٰ نہیں رکھتا کیوں کہ انہوں نے صرف لیپ ٹاپ، پرنٹرز اور سروسز کو ہی درآمد کرنا ہوتا ہے۔

صفر ٹیکس پالیسی

موبائل فون مینو فیکچرنگ اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر مظفر حیات پراچہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجٹ سے پہلے ہی ٹیلی کام سیکٹر کے لیے مراعات دے دی تھیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے مقامی صنعت کے فروغ کے لیے پہلے ہی صفر ٹیکس پالیسی دی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں بہت سی موبائل مینیو فیکچرنگ فیکٹریاں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس بجٹ میں ہول سیلرز پر عائد ٹیکس کی شرح کو دو فی صد سے کم کر کے اعشاریہ دو پانچ فی صد کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ،ان کے بقول، بہت سے لوگ ٹیکس نیٹ میں آئیں گے اور یہ انڈسٹری ڈاکومنٹڈ (دستاویزی) ہو گی۔

درآمد شدہ موبائل اسپیئر پارٹس پر عائد ریگو لیٹری ڈیوٹی میں اضافہ

ان کے بقول، وفاقی بجٹ میں موبائل اسپیئر پارٹس درآمد کرنے والوں پر عائد ریگو لیٹری ڈیوٹی میں معمولی اضافہ کیا گیا ہے، تاکہ مقامی انڈسٹری کو تحفظ دیا جا سکے اور 'میڈ ان پاکستان' پر توجہ دی جاسکے۔

اسمارٹ فونز کی اسمبلنگ اب پاکستان میں
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:21 0:00

ان کا کہنا تھا کہ 30 ڈالر سے کم قیمت موبائل فون پر یہ رقم سو سے ڈیڑھ سو روپے جب کہ 100 ڈالر سے کم قیمت والے فون پر دو سے ڈھائی سو روپے ہے۔

درآمد شدہ موبائلز پر ڈیوٹی میں اضافہ

پاکستان میں 'چینی' موبائل فون اسمبل کرنے والی کمپنی ایئر لنک کمیونی کیشن کے چیف ایگزیکٹو مظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اگلے بجٹ میں بیرونِ ملک سے درآمد ہونے والے موبائل فونز پر عائد ڈیوٹی میں اضافہ کیا جائے تا کہ مقامی صنعت کو فروغ مل سکے۔

ان کے بقول، اس وقت 'سام سنگ' یا 'ایپل' کے فون پر ڈیوٹی 300 ڈالر تک بھی ہے۔ لہٰذا، اگر یہی فون پاکستان میں اسمبل ہوں گے تو ان کی قیمتوں میں 300 ڈالر تک کا فرق ہو گا اور پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ اس کے علاوہ اس سے پاکستان میں ٹیکنالوجی آئے گی اور مستقبل میں یہ فونز برآمد کیے جا سکیں گے۔

مقامی طور پر اسمبل شدہ فونز کی برآمد

مظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت مقامی طور پر اسمبل شدہ موبائل فونز پر تین فی صد چھوٹ دے رہی ہے، جو ان کے مطابق سات سے آٹھ فی صد ہونی چاہیے، کیوں کہ خطے کے دیگر ممالک میں یہ اتنی ہی ہے۔

ان کے مطابق، اگر مستقبل میں چین پر کسی طرح کی پابندیاں لگتی ہیں اور چینی موبائل فون پاکستان میں تیاری کے بعد اسے یہاں سے برآمد کیا جاتا ہے تو اس سے اربوں ڈالر کا زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG