رسائی کے لنکس

اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس


پاکستان کی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کو ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے موؐثر حکمت عملی قرار دیا ہے۔

پیر کو اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں منعقدہ پارلیمانی کمیٹی کے بند کمرہ اجلاس میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل سے متعلق بریفنگ دی۔

حزبِ اختلاف کے اراکین نے قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ متحدہ اپوزیشن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرے گی۔

متحدہ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اہم قانونی مسودوں کو بلڈوز کرنے کے حکومتی رویے اور بقول ان کے اہم آئینی، قانونی، قومی اور سلامتی سے متعلق امور پر مسلسل آمرانہ طرزِ عمل کی بنا پر اِن کیمرہ بریفنگ کا بائیکاٹ کیا۔

پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ اپوزیشن کو قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی عدم شرکت کے باوجود پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا کورم پورا تھا، اس لیے اجلاس منعقد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کی تشکیل پر معید یوسف نے اچھی بریفنگ دی ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی میں عوامی، معاشی اور دفاعی تحفظ کے لیے مؤثر ربط برقرار رکھا گیا ہے۔

ان کے مطابق ملک کی قومی سلامتی پالیسی میں معیشت کا قوی حصہ ہے اور پاکستان کی تمام تر توجہ جیو اکنامکس پر ہے۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل اور اس کے نقاط کو سراہا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں قومی سلامتی پالیسی پر یہ پہلی دستاویز ہو گی جس کی حتمی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائے گی۔

قومی سلامتی امور کے ایک ماہر جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ قومی سلامتی پالیسی میں داخلی اور بیرونی خطرات کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کے تدارک کی حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی اور داخلی سطح پر سلامتی کے متعدد خطرات درپیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی محاذ پر بھارت پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جو کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا سمیت عالمی اداروں میں سخت حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے اور ماضی میں افغانستان کی سر زمین کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔

طلعت مسعود نے کہا کہ افغانستان کے حالات مستحکم نہیں ہیں اور یہ پاکستان کے لیے خطرہ رہیں گے۔ خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان کی ہمسایہ ملک میں موجودگی تشویش ناک ہے۔

اُن کے بقول اقتصادی و معاشی حالات کا مستحکم نہ ہونا اور اس حوالے سے دیگر ملکوں اور عالمی اداروں پر انحصار کمزوری کی علامت ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے جب سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کی مبینہ توہینِ مذہب کے الزام پر قتل کے واقعہ کے بعد حکومتی رہنما متشدد مذہبی رجحانات کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

جنرل (ر) طلعت مسعود بھی سمجھتے ہیں کہ اندرونی طور پر پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہے اور تحریکِ لبیک جیسی مذہبی جماعتیں ملک کے استحکام کے لیے خطرات پیدا کرتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کی جامع پالیسی میں یقیناً انتہا پسندانہ رجحانات کے خاتمہ کی تدابیر رکھی گئی ہوں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ انتہا پسندانہ گروہ اپنی اصلاح کو تیار نہیں تو ریاست کو ان کے ساتھ نمٹنے کے لیے سخت پالیسی اپنانی چاہیے۔

دریں اثنا پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کے نئے مقرر ہونے والے ڈائریکٹر جنرل ندیم احمد انجم نے وزیرِ اعظم عمران خان سے پیر کو ملاقات کی ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے جاری بیان کے مطابق اس ملاقات میں ملک کی مجموعی صورتِ حال اور سلامتی سے متعلق امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG