رسائی کے لنکس

حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ٹی ٹی پی نے خود کو منظم کیا: رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی سینیٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے امن مذاکرات کو خود کو منظم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے سے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کالعدم تنظیم نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ختم کر کے اپنی کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امن مذاکرات سے نہ صرف کالعدم تنظیم کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ اُںہوں نے اس موقع کو تنظیم کو منظم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ نگار داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ نیکٹا کی رپورٹ اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب گزشتہ برس مذاکراتی عمل شروع ہوا تو حکومتِ پاکستان کی پوزیشن کمزور تھی۔ آئے روز سیکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے تھے اور دہشت گردی بڑھ رہی تھی۔

اُن کے بقول ان حالات میں حکومت مذاکرات پر مجبور ہوئی اور سیز فائر کی وجہ سے فریقین نے ایک دوسرے پر حملے روک دیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے داؤد خٹک نے مزید بتایا کہ قبائلی روایات میں مذاکرات ہمیشہ طاقت ور فریق سے ہی کیے جاتے ہیں۔ لہذٰا جب مذاکرات کا آغاز ہوا تو ٹی ٹی پی بہتر پوزیشن پر تھی۔

طالبان کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تعلیم طالبات کا حق ہے، امریکی تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:50 0:00

'ٹی ٹی پی کو افغان طالبان نے مذاکرات پر قائل کیا تھا'

اُن کے بقول ٹی ٹی پی مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھی بلکہ اسے افغان طالبان نے مذاکرات پر قائل کیا۔ لہذٰا اُنہوں نے ایسی شرائط رکھیں جو پاکستان حکومت کو قابلِ قبول نہیں تھیں۔

خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ ٹی ٹی پی نے مطالبہ رکھا ہے کہ قبائلی اضلاع کا خیبرپختونخوا میں انضمام ختم کر دیا جائے۔

داؤد خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے اس مطالبے کو رد نہیں کیا تھا بلکہ وقت مانگا تھا۔

اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاکرات کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کو باہمی رابطے کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔ انہیں اپنے علاقوں میں واپس آنے کی اجازت دی گئی جب کہ ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈرز کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتوں کا موقع ملا جس نے لامحالہ تنظیم کو منظم کیا۔

داؤد خٹک کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے اب قبائلی اضلاع کے علاوہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی ہے۔ اب وہ شہروں میں بھی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

دہشت گردی میں اضافے پر امریکہ کی تشویش

دریں اثنا امریکہ نے بھی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کالعدم شدت پسند تنظیم (داعش) اور ٹی ٹی پی کے گردہ گھیرا تنگ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

یاد رہے کہ کابل میں داعش کی جانب سے پاکستانی ناظم الامور پر حملے کی بھی امریکہ نے پرزور مذمت کی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے افغانستان میں سرگرم عسکریت پسندوں کو مشترکہ دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مقابلہ کرنا امریکہ اور پاکستان کا مشترکہ مفاد ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز سے منسلک دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) سید نذیر کا کہنا ہے کہ امریکی بیان سے افغان طالبان پر بھی دباؤ آئے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ طالبان امریکہ سمیت عالمی برادری کو یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ وہ کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن دوسری جانب ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔

سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں نئی فوجی قیادت آ چکی ہے اور نئے آرمی چیف نے پاکستان، افغانستان سرحد سے متصل علاقوں کا دورہ کر کے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں۔

کسی نئے فوجی آپریشن کے سوال پر بریگیڈیئر (ر) سید نذیر کہتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ دہشت گردوں کے خلاف ضربِ عضب یا راہِ نجات کی طرز پر آپریشن شروع ہو گا۔ اُن کے بقول ٹی ٹی پی کا قلع قمع کرنے کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن ہی کیے جائیں گے۔

ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی نقل و حرکت کی اطلاعات

جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے وائس آف امریکہ کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت ٹی ٹی پی کے جنگجو بغیر کسی خوف کے علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے اہلکار جس طریقے سے پہلے گشت کرتے تھے وہ اب ایسا نہیں کر رہے بلکہ ان کی سرگرمیاں اب اپنے کیمپوں تک ہی محدود ہو گئی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیرستان کے رہائشیوں کی کیفیت ایک مرتبہ پھر پہلےوالی سطح پر آ گئی ہے۔ انہیں یہ خدشہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کسی آپریشن کی صورت میں وہ پھر سے بے گھر نہ ہو جائیں۔

خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ہتھیار چھوڑ کر آئینِ پاکستان کو تسلیم کرنے والے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو اپنے علاقوں میں آنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

پاکستان کے کچھ علاقوں میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کی اطلاعات پر حکام نے سوات، مٹہ اور خیبرپختونخوا کے کچھ اضلاع میں چوکیاں قائم کر کے سرچ آپریشن بھی کیے تھے۔

XS
SM
MD
LG