رسائی کے لنکس

نیپال کی پارلیمنٹ میں ملک کا نیا نقشہ منظور، بھارت کا اعتراض


بھارت کی جانب سے متنازع علاقے پر ملکیت کے دعوے کے خلاف نیپال میںں احتجاج
بھارت کی جانب سے متنازع علاقے پر ملکیت کے دعوے کے خلاف نیپال میںں احتجاج

نیپال کی پارلیمنٹ نے ہفتے کے روز ایک خصوصی اجلاس کے دوران اس نقشے کو منظوری دے دی جس میں تین ایسے علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن پر بھارت کا دعویٰ ہے۔

ملک کے نقشے کی ترتیب نو کے لیے ایک ترمیمی بل ایوان میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ ایوان میں موجود تمام 258 ارکان نے نقشے کے حق میں ووٹ دیا۔ بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں پڑا۔ ایوان میں کل 275 ارکان ہیں مگر موجود 258 تھے۔

ترمیم شدہ نقشے میں بھارت کی سرحد سے متصل اسٹریٹجک اہمیت کے حامل تین علاقوں لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمپیادُھرا کو شامل کیا گیا ہے۔

بھارت نے اس پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”دعوؤں کی یہ مصنوعی توسیع قابل دفاع نہیں ہے“۔

وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے کہا کہ” ہم نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ نیپال کے ایوان نمائندگان نے نیپال کے نقشے میں ترمیم کے لیے ایک آئینی ترمیمی بل کو منظوری دی ہے۔ نقشے میں بھارت کے علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس معاملے پر ہم پہلے ہی اپنا موقف واضح کر چکے ہیں“۔

انھوں نے مزید کہا کہ ”دعوؤں کی یہ مصنوعی توسیع تاریخی حقائق یا ثبوتوں پر مبنی نہیں ہے اور قابل مدافعت نہیں ہے۔ یہ سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بات چیت کی موجودہ سمجھ کی خلاف ورزی بھی ہے“۔

انوراگ سری واستو کے مطابق بھارت نیپال کے ساتھ اپنے دوستانہ اور تہذیبی رشتوں کو کافی اہمیت دیتا ہے۔ ہمارے باہمی شراکت داری کو حالیہ برسوں میں فروغ حاصل ہوا ہے۔

اس سے قبل انھوں نے کرونا عالمی وبا سے لڑنے میں نیپال کو دی جانے والی مدد کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ نیپال کو تقریباً 25 ٹن طبی اشیا فراہم کی گئی ہیں جن میں پیرا سیٹا مال اور ہائڈروکسی کلروروکوین دوائیں، ٹیسٹ کٹس اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے ہفتے کی صبح کو کہا کہ نیپال کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ ہمارے درمیان جغرافیائی، تہذیبی اور اقتصادی رشتہ ہے۔ عوام سے عوام کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔ نیپال سے ہمارے رشتے ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔

گزشتہ ماہ نیپال کی حکمراں جماعت نے اس نقشے کو منظوری دی تھی جس پر بھارت نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ یہ قدم یک طرفہ ہے اور حقائق کے خلاف ہے۔ اپوزیشن نیپالی کانگریس نے کہا تھا کہ وہ اس کے حق میں ووٹ دے گی۔

ان تینوں علاقوں پر نیپال بھی دعویٰ کرتا ہے۔ اس سے قبل نیپالی سیاست دانوں کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارت سے بات چیت کی اپیل کی گئی تھی۔ دونوں میں سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات ہونے تھے لیکن اس کی تاریخ طے نہیں ہو سکی۔

نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت چین کے ساتھ سرحدی تنازع کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کر سکتا ہے تو نیپال کے ساتھ کیوں نہیں کر سکتا۔ انھوں نے کہا کہ اگر بھارت نے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی تو مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔

نیپال کے اہلکاروں نے کہا ہے کہ انھوں نے گزشتہ نومبر کے بعد سے بات چیت کے لیے تین تجاویز بھارت کے سامنے رکھی تھیں۔ ایک پیشکش حالیہ دنوں میں مئی میں کی گئی۔ لیکن بھارت کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے مطابق لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمپیادھرا 1816 میں برطانوی حکومت کے ساتھ ہونے والے سوگولی معاہدے کے تحت نیپال کا حصہ ہیں۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ دریائے کالی کے مشرق کا تمام علاقہ نیپال کا ہے۔

انھوں نے بھارت پر خطے میں مصنوعی سرحد بنانے اور فوج کی تعیناتی کے ساتھ نیپال کے علاقے پر ناجائز قبضے کا الزام عائد کیا۔

بھارت نے ان دعوؤں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ان میں کوئی سچائی نہیں۔

اب جب کہ ایوان زیریں سے یہ نقشہ منظور ہو چکا ہے تو اسے ایوان بالا میں پیش کیا جائے گا اور وہاں بھی یہی عمل دوہرایا جائے گا۔ قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کیے جانے کے بعد اسے صدر کے پاس بھیجا جائے گا۔ ان کے دستخط کے بعد یہ ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی۔

بھارت اور نیپال کے رشتوں میں گزشتہ دنوں اس وقت کشیدگی پیدا ہو گئی جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 8 مئی کو لیپو لیکھ درے کو دھار چولہ سے ملانے والی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل 80 کلومیٹر لمبی سڑک کا افتتاح کیا۔

نیپال نے اس سڑک کے افتتاح پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ سڑک نیپالی علاقے سے ہو کر گزرتی ہے۔ لیکن بھارت نے اس کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سڑک پوری طرح اس کے اپنے علاقے میں واقع ہے۔

نیپال نے گزشتہ ماہ ملک کا نیا نقشہ جاری کرتے ہوئے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل تین علاقوں لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمپیادُھرا کو بھی اس میں شامل کر دیا۔

بھارت نے گزشتہ سال جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد ایک نیا نقشہ جاری کیا تھا جس میں اس نے کالا پانی کو اپنا علاقہ دکھایا تھا۔ اس پر نیپال نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور کالا پانی کو اپنا علاقہ بتایا تھا۔

یاد رہے کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کے درمیان جمعہ کے روز بہار میں سیتا مڑھی کے نزدیک واقع سرحد پر نیپال کی مسلح فورس اور بھارتی باشندوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا جس میں نیپالی فورس نے پندرہ راونڈ فائرنگ کی جس میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔ نیپالی فورس نے ایک بھارتی باشندے کو حراست میں لے لیا تھا جسے ہفتے کے روز چھوڑ دیا گیا۔

یہ واقعہ نیپال کی سرحد کے اندر سرلاہی علاقے میں پیش آیا۔

سیتا مڑھی کے ایک خاندان کی ایک بہو نیپال کی باشندہ ہے۔ وہ لوگ اپنی بہو کو لینے کے لیے نیپال کے اندر گئے اور ایک جگہ کھڑے ہو کر بہو سے بات کرنے لگے۔ اس پر وہاں تعینات نیپال کی مسلح پولیس نے کہا کہ نیپال میں 14 جون تک لاک ڈاون ہے لہٰذا وہ لوگ اس علاقے سے چلے جائیں۔

اس پر دونوں جانب سے تکرار ہوئی اور پھر بھارتی علاقے کے بہت سے لوگ وہاں پہنچ گئے۔ نیپالی فورس کا کہنا ہے کہ پہلے اس نے ہوا میں فائرنگ کی لیکن پھر اپنے ہتھیار چھین لیے جانے کے خوف سے اس نے نشانہ لگا کر فائرنگ کی۔

بعد کو دونوں جانب کے پولیس اہلکاروں کے درمیان بات چیت ہوئی اور اس مسئلے کو حل کیا گیا۔ بھارتی پولیس عہدے داروں کے مطابق یہ ایک مقامی معاملہ تھا جسے حل کر لیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG