رسائی کے لنکس

کراچی: پرانے شہر کی حدود، نیا ’شہر‘ بسانے کی تیاریاں


بہت تیزی سے یہ خبریں گردش کرنے لگی ہیں کہ نئے شہر میں شاید ایک بھی ایسا مسئلہ نہیں ہوگا جو ’پرانے شہر‘ کی ’یاد‘ دلانے کا سبب ہو۔ مثال کے طور پر بدامنی، کاروباری مندی، لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بے ہنگم ٹریفک، تنگ سڑکیں، گیس اور پانی کا بحران۔۔۔

بحیرہ عرب کے کنارے آباد اور طول و ارض تک بانہیں پھیلائے رکھنے والے’شہر قائد‘ ۔۔’کراچی‘۔۔کی حدود میں ان دنوں ایک نئے اور جدید ’شہر‘ آباد کئے جانے کے دعوے سامنے آرہے ہیں۔

بہت تیزی سے یہ خبریں گردش کرنے لگی ہیں کہ نئے شہر میں شاید ایک بھی ایسا مسئلہ نہیں ہوگا جو ’پرانے شہر‘ کی ’یاد‘ دلانے کا سبب ہو۔ مثال کے طور پر بدامنی، کاروباری مندی، لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بے ہنگم ٹریفک، تنگ سڑکیں، گیس اور پانی کا بحران۔۔۔

نیا شہر بسانے کا دعویٰ بحریہ ٹاوٴن کی طرف سے کیا جارہا ہے، جو دراصل ایک ایسا تعمیراتی ادارہ ہے جو شہر میں متعدد فلک بوس عمارات تعمیر اور کئی وسیع و عریض رہائشی منصوبوں کو عملی شکل دے چکا ہے۔ ان دنوں یہ حکومت سندھ کے ساتھ ملکر کئی اہم سڑکوں، چوراہوں، مساجد اور یونیورسٹیز کی تعمیر میں بھی پیش پیش ہے، جبکہ فلاحی کاموں میں بھی اس کا بڑا حصہ ہے۔

سپرہائی وے پر بسائے جانے والے اس نئے’جہاں‘ سے متعلق منصوبوں میں کہا جا رہا ہے کہ یہاں رہنے والوں کی مکمل انشورنس ہوگی، انہیں بلاتعطل بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی جاری رہے گی، جبکہ انفراسٹرکچر یعنی سڑکوں کا نظام اور سیکورٹی کا انتظام دونوں اعلیٰ پائے کے ہوں گے۔

اندازاً ڈھائی کروڑ کی آبادی رکھنے والے اس شہر کا جغرافیہ کچھ اس نوعیت کا ہے کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ شہری ہر روز صبح شہر کے تمام چھوٹے بڑے علاقوں سے ٹاور اور آئی آئی چندریگر روڈ اور اس سے متصل علاقوں میں واقع سرکاری، نیم سرکاری، خود مختار، پرائیویٹ اور ملٹی نیشنل اداروں کا رخ کرتے ہیں جبکہ پورٹ، اسٹاک ایکسچینج، کاٹن ایکسچینج، بینکس اور تمام بڑی اور ہول سیل مارکیٹس تک اسی علاقے میں واقع ہیں۔

پھر شام کو انہی علاقوں سے دوبارہ دوسرے علاقوں کو واپسی ہوتی ہے۔ یوں، ٹریفک جام سے لیکر آلودگی تک بے شمار گھمبیر مسائل جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ، پرانے شہر میں آباد بہت سی قدیم اور ہول سیل مارکیٹس مثلاً ٹمبر، پیپر، میڈیسن، کلاتھ اور جوڑیا بازار جیسے بازاروں کو سپرہائی وے پر نئے سرے سے آباد کئے جانے کا منصوبہ زیر عمل ہے، تاکہ شہر کے پرانے علاقوں سے ٹریفک کا دباوٴ بھی کم ہوسکے اور دیگر مسائل بھی حل ہوسکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈاؤن ٹاؤن کراچی، میڈیکل سٹی کراچی اور کراچی انٹرنیشنل فنانشیل سینٹر کو سپر ہائی وے کے قریب ہی واقع بحریہ ٹاؤن میں تعمیر کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت وہاں لیبر کالونی، ا سکول، اسپتال، مساجد، دکانیں، گودام اور شاپنگ سینٹرز بھی تعمیر ہوں گے جبکہ، ٹرانسپورٹ کا بھی جدید انتظام مہیا کیا جائے گا۔

اس منصوبے سے شہر کو کتنے فیصد فائدہ ہوگا اور شہر کا مستقبل کیا واقعی اس منصوبے کے بعد روشن ہو سکے گا اور یہ کہ کیا واقعی نئے شہر کو بسائے جانے کے بعد پرانے شہر کے بہت سے مسئلے حل ہوجائیں گے، یہ جاننے کے لئے وی او اے کے نمائندے نے کراچی کے کمشنر شعیب احمد صدیقی سے مسلسل رابطے کی کوشش کی لیکن آخری وقت تک یہ ممکن نہ ہوسکا۔

تاہم، شہری اس حوالے سے ملی جلی رائے رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات چیت میں بیشتر شہریوں کا کہنا تھا کہ سپرہائی وے پر شروع ہونے والا منصوبہ بہت مہنگا ہے۔ وہاں ایک عام آدمی تو بس ہی نہیں سکتا، چنانچہ مسائل سے ’پاک‘بھی وہی لوگ ہوں گے جن کے پاس پیسہ ہے۔

صدر کے علاقے میں رہائش رکھنے والے ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ ’اگر نئے علاقے میں مسائل حل ہوسکتے ہیں تو پرانے میں کیوں نہیں؟‘، جبکہ ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ نیا زون اسلام آباد کی طرح باقاعدہ پلاننگ کے تحت بن رہا ہے اس لئے وہاں سہولیتں زیادہ ہوں گی۔‘

XS
SM
MD
LG