رسائی کے لنکس

سی پیک کے نئے مجوزہ قانون میں کیا نیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی وفاقی حکومت نے اربوں ڈالرز کے منصوبے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کیلئے قائم سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت ختم ہونے کے باعث نیا قانون لانے کی منظوری دیدی گئی ہے جس کے تحت چیئرمین اور سی پیک اتھارٹی کے اختیارات میں کمی کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو آفیسر سی پیک اتھارٹی کا عہدہ ختم کیا جا رہا ہے۔

سی پیک اتھارٹی وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی بجائے وزیراعظم کو رپورٹ کرے گی۔

نیب سمیت کسی تحقیقاتی ادارے کو کارروائی کی اجازت نہیں ہو گی

نئی قانون سازی کے مطابق چیئرمین سی پیک اتھارٹی، ممبران، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور ریسرچرز کی اچھی نیت پر مبنی اقدامات کے خلاف نیب، ایف آئی اے یا کوئی تحقیقاتی ادارہ انکوائری نہیں کر سکے گا۔

سی پیک اتھارٹی کو سی پیک سے منسلک کسی بھی ادارے یا شخص سے معلومات حاصل کرنے کا اختیار ہو گا۔ سی پیک اتھارٹی کی جانب سے فراہم کردہ مدت کے اندر معلومات فراہم کرنا ضروری ہو گا۔

سی پیک اتھارٹی کی جانب سے وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور مقامی حکومت کے ماتحت کام کرنے والے دفاتر، ایجنسی سے معاونت حاصل کی جا سکے گی۔

اس مقصد کیلئے صوبوں کی جانب سے سی پیک اتھارٹی کی معاونت کیلئے نمائندہ مقرر کیا جائے گا۔ سی پیک اتھارٹی سی پیک فریم ورک پر عملدر آمد کیلئے مسائل کو متعلقہ وزارتوں، ڈویژن کے سامنے رکھنے کا اختیار ہو گا۔

بزنس کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا

اتھارٹی کا سی پیک بزنس کونسل قائم کرنے کا اختیار ختم کرتے ہوئے بورڈ آف انویسٹمنٹ کو اختیار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بورڈ آف انویسٹمنٹ کے نوٹیفکیشن کے ذریعے سی پیک بزنس کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

بزنس کونسل نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمز کمشن آف چائنا اور وزارت منصوبہ بندی پاکستان کے درمیان ہونے والی مفاہمتی یاداشت کے مطابق اتھارٹی کو مقاصد کے حصول کیلئے تجاویز دے گی۔

بورڈ آف انویسٹمنٹ بزنس، کونسل کے سیکرٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔ بزنس کونسل کا اجلاس ہر کچھ عرصے بعد بلایا جائے گا۔

سی ای او کی جگہ چیئرپرسن اتھارٹی کا پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر ہو گا۔ اتھارٹی کو سنگل لائن بجٹ فراہم کیا جائے گا۔

چیئرمین کے ووٹ کا اختیار ختم

سی پیک اتھارٹی میں فیصلہ کن کردار کیلئے چیئرمین کے ووٹ کا اختیار ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

سی پیک آرڈیننس 2019 کے تحت حاضر شدہ ممبرز کے اکثریتی فیصلے کی بنیاد پر فیصلہ اور چیئر پرسن اور 6 ممبران کی جانب سے اجلاس کا کورم تشکیل دیا جاتا تھا، تاہم سی پیک اتھارٹی بل 2020 کے تحت کل ممبران کی اکثریت کی جانب سے فیصلہ سازی کی جائے گی اورکل ممبران کی دو تہائی اکثریت کی جانب سے اجلاس کا کورم قائم کیا جائے گا۔

اتھارٹی کی جانب سے تیار کیے جانے والے بجٹ کا 3 رکنی بجٹ کمیٹی کی طرف سے جائزہ لیا جائے گا۔ بجٹ کمیٹی کے دو ارکان کو سی پیک اتھارٹی اور ایک رکن کو انتظامی اتھارٹی کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔

سی پیک منصوبوں کی منظوری ضروری نہیں

سی پیک اتھارٹی کو منصوبوں کے لیے سنٹرل ورکنگ ڈیولپمنٹ پارٹی اور ایکنک سے منظوری حاصل کرنا ضروری نہیں ہو گا۔

سی پیک اتھارٹی سی پیک فنڈ قائم کر سکے گی۔ سی پیک فنڈز کی شرائط و ضوابط کی منظوری فنانس ڈویژن کی جانب سے دی جائے گی جس کے تحت وزارت خزانہ اخراجات پر نظر رکھے گی۔

سی پیک اتھارٹی کا آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کرے گا

نئے قانون کے مطابق سب سیکشن 2 کے تحت نامزد کردہ آڈیٹر کو تمام دستاویزات، اکاؤنٹس تک رسائی دی جائے گی۔

آڈیٹر کی جانب سے سالانہ اور کوئی بھی سپیشل آڈٹ رپورٹ اتھارٹی کو پیش کی جائے گی۔ سی پیک اتھارٹی کی جانب سے حکومت کو آگاہ کرنے کے بعد آڈٹ رپورٹ پر ایکشن لیا جائے گا۔

CPEC-
CPEC-

اتھارٹی کی جانب سے داخلی آڈٹ اور مالی انتظامات کیلئے طریقہ کار تجویز کیا جائے گا۔ وزیراعظم کی جانب سے اتھارٹی کے مالی انتظامات کے حوالے سے وضاحت یا مزید تفصیلات طلب کی جا سکیں گی۔

سی پیک اتھارٹی کی ویب سائٹ پر سہ ماہی پیش رفت رپورٹ شائع کی جائے گی۔ اتھارٹی کے مالی اختیارات مالی کنٹرول اور بجٹنگ کے نظام کی شرائط اور فنانس ڈویژن کی ہدایات کے مطابق تفویض کئے جائیں گے۔

سی پیک آرڈیننس 2019 کے تحت جاری کیے جانے والے لائسنس، معاہدے، احکامات جن پر عملدر آمد کیا جا چکا ہے، سی پیک اتھارٹی بل 2020 کے تحت مقررہ مدت تک قانونی تصور کیے جا ئیں گے۔

سی پیک اتھارٹی کب قائم ہوئی

پاکستان اور چین کے اس منصوبے کیلئے پانچ اکتوبر 2019 کو آرڈیننس کے ذریعے سی پیک اتھارٹی قائم کی گئی۔ 31مئی کو آرڈیننس کی مدت ختم ہوئی تو حکومت نے قانونی گنجائش کے تحت سی پیک اتھارٹی کے قانون میں مزید 120 دنوں کی توسیع حاصل کر لی۔

اس عرصے کے دوران لازم تھا کہ قومی اسمبلی سے سی پیک اتھارٹی کا قانون منظور کروایا جاتا۔ وفاقی حکومت سی پیک اتھارٹی کا قانون مقررہ مدت میں منظور نہ کروا سکی، جس کے نتیجے میں سی پیک اتھارٹی تحلیل ہو گئی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سی پیک کے رکن عثمان کاکڑ کہتے یں کہ سی پیک کے منصوبوں میں شفافیت ہونی چاہیے۔، انہوں نے کہا کہ سی پیک پر پہلا حق بلوچستان کا ہے اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی بھی بلوچستان سے ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا اس منصوبے کی شفافیت برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے تمام منصوبوں میں پارلیمنٹ کو اہمیت دے جائے اور منصوبوں پر نظر رکھنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تجویز بھی دی ہے۔

سی پیک منصوبہ ہے کیا

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو کا ایک اہم منصوبہ ہے جسے چینی صدر شی جن پنگ نے تجویز کیا تھا۔

مئی 2013 میں چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران سی پیک کی تجویز پیش کی۔ جولائی 2013 میں وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ چین کے دوران سی پیک پر کام شروع کرنے کے لئے ایک مفاہمت نامے پر دستخط ہوئے، جس کے بعد منصوبے پر کام شروع ہوا۔ سی پیک میں طویل المدتی منصوبہ بندی، توانائی، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، صنعتی تعاون اور گوادر بندرگاہ شامل ہیں۔

اس منصوبہ کے حوالے سے وفاقی حکومت کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ سی پیک کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں جس میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کہتے ہیں کہ سی پیک پاکستان کی ترقی کا راستہ ہے، سی پیک کی کامیابی پاکستان کی کامیابی ہے۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا اور جب سی پیک مکمل ہوگا تو پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

XS
SM
MD
LG