رسائی کے لنکس

بھارت میں گائے کی موت ایک پولیس افسر کی موت سے اہم ہوگئی ہے: نصیر الدین شاہ


نصیرالدین شاہ اپنی بیٹی کے ہمراہ (فائل)
نصیرالدین شاہ اپنی بیٹی کے ہمراہ (فائل)

بالی ووڈ کے سرکردہ اسٹار نصیر الدین شاہ کے اس بیان پر ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ بھارت میں نفرت کا زہر چاروں طرف پھیل گیا ہے اور اب ایک گائے کی موت کو ایک پولیس افسر کی موت کے مقابلے میں زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرکے موجودہ حالات پر اظہار تشویش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’نفرت کا جو جن بوتل سے باہر آگیا ہے اب اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنا بہت مشکل ہوگا‘‘۔

انھوں نے بلند شہر میں گزشتہ دنوں گؤ کشی کے ایک معاملے اور اس پر احتجاج کے دوران ایک پولیس انسپکٹر کی موت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’لوگوں کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ کئی علاقوں میں ہم لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ایک گائے کی موت کو ایک پولیس افسر کی موت کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے‘‘۔

ان کے بقول ’’حالات جلد سدھرتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ان باتوں پر مجھے ڈر نہیں لگتا بلکہ غصہ آتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ہر صحیح سوچ رکھنے والے انسان کو غصہ آنا چاہیے‘‘۔

بلند شہر میں گائے کے ذبیحے کے الزام میں پولیس نے جن چار مسلمانوں کو گرفتار کیا تھا اب اس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور وہ عدالت سے انھیں رہا کرنے کی اپیل کرنے والی ہے۔

جبکہ پولیس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی ہلاکت کے سلسلے میں اصل ملزم بجرنگ دل کے یوگیش کمار اور بی جے پی کے دوسرے لیڈروں کو ابھی تک پکڑا نہیں جا سکا ہے۔

نصیر الدین شاہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ہندوستان ہمارا گھر ہے۔ ہمیں کون نکال سکتا ہے یہاں سے‘‘۔

اس ویڈیو پیغام میں نصیر الدین شاہ نے مزید کہا کہ انھوں نے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم نہیں دلائی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اچھے برے کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔ ’’ہم نے انھیں اچھے برے کی تمیز سکھا دی ہے۔ اگر کل کہیں انھیں کوئی بھیڑ گھیر لے اور ان سے پوچھے کہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان تو وہ کیا جواب دیں گے۔ اس لیے مجھے اپنے بچوں کی فکر ہے‘‘۔

خیال رہے کہ نصیر الدین شاہ ایک مسلم خاندان میں پیدا ہوئے اور ان کی بیوی اسٹیج اداکارہ رتنا پاٹھک ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

نصیر الدین شاہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو قرآن کی دو ایک آیتیں ضرور یاد کرائی ہیں؛ کیونکہ، بقول ان کے ’’اس سے تلفظ بہتر ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ راماین یا مہابھارت پڑھنے سے ہندی کا تلفظ سدھرتا ہے‘‘۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کو بچپن میں تھوڑی بہت مذہبی تعلیم ملی تھی اور انھیں قرآن کی دو ایک آیتیں یاد ہیں۔ ان کے خیال میں ’’اسی لیے میرا تلفظ درست ہے‘‘۔

نصیر الدین شاہ کے اس بیان پر یوگا گرو رام دیو نے شدید رد عمل ظاہر کیا اور کہا کہ اگر ان کو یہاں ڈر لگتا ہے تو وہ پاکستان چلے جائیں۔

بی جے پی ایم پی راکیش سنہا سمیت کئی بی جے پی رہنماؤں نے بھی ان کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اگر انھیں یہاں ڈر لگتا ہے تو انھیں یہاں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حالانکہ نصیر الدین شاہ نے نہ تو یہ کہا ہے کہ انھیں ڈر لگتا ہے اور نہ ہی انھوں نے پاکستان کا نام لیا ہے؛ جبکہ ایک مسلم سیاست داں اور ایس ڈی پی آئی کے قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی کا کہنا ہے کہ اگر نصیر الدین شاہ اپنے بچوں کو دین سکھا دیتے تو آج وہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہوتے۔

انھوں نے شاہ سے پوچھا کہ وہ کچھ کریں گے بھی یا غصے میں آکر متنازعہ بیان ہی دیں گے۔ ’’انھیں چاہیے کہ وہ سماج کو بتائیں کہ اس کے لیے ان کی کیا خدمات ہیں‘‘۔

یاد رہے کہ اس سے قبل شاہ رخ خان اور عامر خان بھی کچھ اسی قسم کے بیانات دے کر دائیں بازو کے کارکنوں کی شدید تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG