گذشتہ سال دسمبر میں صدر اوباما کے اس اعلان کو کہ جولائی 2011ءمیں افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہوجائے گی ، بہت سے حلقوں نے خوش آئند قرار دیا تھا، تاہم کئی ناقدین نےجو وہاں تعمیر نو کی سہولیات کی فراہمی کوامریکی حکومت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں ،اس پر اعتراضات بھی اٹھائے تھے ۔ حال ہی میں امریکہ نےافغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار کے بارے میں اسی حوالے سے ایک بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
صدر اوباما کی جانب سے جولائی 2011 تک امریکی و اتحادی افواج کے انخلاکی خبر جہاں امریکہ میں ان حلقوں کے لیے اطمینان کا باعث بنی تھی جو گذشتہ نو برس سے افغانستان میں جنگ کے فوائد و مقاصد کے حوالے سے امریکی حکومت پر سوالیہ نشان اٹھا رہے تھے وہیں بہت سے امریکیوں نے اسے مسترد کیا تھا۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے وابستہ جنوبی ایشائی امور کی ماہر لیسا کرٹس امریکہ کی جانب سے افغان عوام کے شبہات دور کرنے اور ان کی بہتری کے ضمن میں امریکی اقدامات کو ضروری اور وقت کی اہم ضرورت سمجھتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میرے نزدیک اصل چیز وہاں کی آبادی کو بنیادی ضروریات مہیا کرنا ہے تاکہ اتحادی افواج وہاں کے لوگوں کے دل جیت سکے۔ میرے خیال میں مقامی لوگوں میں اس حوالے سے شکوک و شبہات ہیں کہ پہلے کیا ہوتا رہا ہے اور اب کیا ہوگا۔
افغانستان کے جنوب میں واقع دوسرے بڑے شہر قندھار کو طالبان کی طاقت کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے جہاں سے طالبان تحریک نے زور پکڑا تھا۔ اور اب بھی اسے طالبان کی جنت سمجھا جاتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے قندھار میں فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ تعمیراتی کاموں اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو بہت سے امریکی ماہرین کی جانب سے گذشتہ نو سال کے دوران امریکہ کا ایک اہم اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔
لیسا کرٹس کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ جس طرح جنرل میک کرسٹل نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان کو سیکیورٹی فراہم کرے گا اور اتحادی افواج بھی اگلے چند ماہ میں قندھارکے باہر اور اس کے بعد قندھار شہر میں مقامی شہریوں کی حفاظت کے لیے جائیں گی۔ جس کا مقصد وہاں پر حکومتی عمل داری کی بحالی ، شہریوں کو بنیادی ضروریات مہیا کرنا اور تعمیر ِ نو ہے۔ اس لیے بنیادی طور پر وہاں جانے والی افواج کی اولین ترجیح لڑائی کی بجائے قندھار کی بہتری کے لیے اقدامات ہوگا۔
مگر کیا قندھار میں کیے جانے والے اس نئے امریکی آپریشن سے حالات فوری طور پر قابو میں آسکیں گے اور کیا مقامی آبادی کے دل جیتنا اتنا ہی آسان ہوگا ؟ واشنگٹن میں انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کمبرلی کیگن اس حوالے کسی فوری نتیجے کے انتظار کو جلد بازی قرار دیتی ہیں۔ ان کے نزدیک افغانستان کے پیچیدہ حالات کی درستگی کے عمل میں امریکی و اتحادی افواج کو بہت وقت لگ سکتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ افغانستان اس وقت لڑائی کی لپیٹ میں ہے۔ طالبان کے خلاف کیے جانے والے آپریشنز کی وجہ سے افغانستان اور بطور ِ خاص جنوبی افغانستان کے حالات بہتر ہوئے ہیں اور طالبان کی قوت کم ہوئی ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے آپریشن جاری رکھے تاکہ طالبان کی بغاوت کو کچلا جا سکے۔
جنوبی ایشیائی امور کی ماہر لیزا کرٹس بھی قندھار شہر میں اس تمام عمل کو طالبان کی موجودگی کے باعث دشوار قرار دیتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں جنرل میک کرسٹل اور اتحادی افواج کے ذہن میں یہ بات ہے اور انہوں نےمرجہ آپریشن کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس خطے کو چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ اور ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ وہاں طالبان ہیں اور یہ سب سے مشکل کام ہوگا۔ انہوں نے مرجا آپریشن سے سبق سیکھا ہوگا مگر پھر بھی قندھار شہر میں یہ سب کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
دوسری جانب امریکہ میں کئی حلقے جہاں افغانستان کی صورت ِ حال میں ایک نئی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں، وہیں بہت سے ماہرین افغانستان میں امن کے عمل کو پاکستان کی مدد سے مشروط قرار دیتے ہیں۔
واشنگٹن میں ماہرین قندھار میں فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ شہر کی تعمیر ِ نو اور مقامی آبادی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کو امریکی افواج کے لیے ضروری سمجھنے کے ساتھ ساتھ امن کے قیام کودہشت گردی میں ملوث طالبان کے قلع قمع سے مشروط قرار دیتے ہیں۔