رسائی کے لنکس

میانمار میں فوجی کاروباروں سے غیرملکی سرمایہ کار نکلنا شروع


میانمار کے مرکز شہر ینگوں میں ایک بینک کے سامنے لوگ قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ یکم فروری 2021
میانمار کے مرکز شہر ینگوں میں ایک بینک کے سامنے لوگ قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ یکم فروری 2021

میانمار میں فوج کی جانب سے سویلین حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کے معاشی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر جاپان کی مشروبات کی ایک بڑی کمپنی کیرین نے اعلان کیا کہ میانمار میں فوجی ملکیت کی مشروبات کی ایک بڑی کمپنی 'میانمار بیئر' کے ساتھ اپنی شراکت داری ختم کر رہا ہے ۔اسی طرح منگل کے روز ایک اور کمپنی آر ایم ایچ سنگاپور نے کہا کہ وہ میانمار کی 'ورجینیا ٹوبیکو کمپنی' میں اپنے شیئرز ختم کر رہا ہے، اس کمپنی کی مشترکہ ملکیت فوج کے پاس ہے۔

میانمار میں کان کنی، مصنوعات کی تیاری سے لے کر، بینکاری، جائیدادوں کی خرید و فروخت، سیاحت، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی مواصلات سمیت متعدد کاروباروں میں فوج کی شراکت داری ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کئی اور بین الاقوامی کمپنیاں بھی میانمار میں فوج کے ساتھ شراکت داری اور فوجی ملکیت کے کاروباروں میں اپنی سرمایہ کاری روکنے پر غور کر رہی ہیں جس سے فوج کے معاشی مفادات پر دباؤ بڑھے گا۔

دوسری جانب سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف ملک گیر مظاہرے بدھ کو پانچویں روز بھی جاری رہے۔ فوج مظاہروں کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال میں اضافہ کر رہی ہے۔ جس میں مظاہرین کے خلاف ربڑ کی گولیوں اور تیز دھار پانی کا استعمال اور انہیں ڈارنے کے لیے انتباہی فائرنگ شامل ہے۔ دارالحکومت کے ایک اسپتال کے ڈاکٹر نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو بتایا کہ اسپتال میں دو زخمی لائے گئے تھے جنہیں گولیاں لگی تھیں۔

میانمار میں فوجی قبضے کے خلاف لوگوں کا مظاہرہ۔ 10 فروری 2021
میانمار میں فوجی قبضے کے خلاف لوگوں کا مظاہرہ۔ 10 فروری 2021

امریکہ نے منگل کے روز مظاہرین پر تشدد کی مذمت کی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان پرائس نے رپورٹروں کو بتایا کہ امریکہ میانمار کی فوج سے مسلسل اپیل کر رہا ہے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائے، جمہوری طور پر منتخب حکومت کو بحال کرے، تمام گرفتار شدگان کو رہا کرے اور مواصلاتی پابندیاں ختم کرے۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر عالمی رہنماؤں نے بھی میانمار میں فوج کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کی مذمت کی ہے اور جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کو اقتدار واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

نیوزی لینڈ نے میانمار کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے اور میانمار کی فوجی قیادت پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ اُن کا ملک یہ یقینی بنائے گا کہ ایسے تمام پروجیکٹس روک لیے جائیں جس سے میانمار کی فوجی حکومت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔

جیسنڈا آرڈن نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ میانمار سے تعلقات منقطع کر کے ہم پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کی جانب سے میانمار کو ملنے والی کسی بھی قسم کی فنڈنگ سے فوجی حکومت استفادہ نہیں کر سکے گی۔

دوسری جانب نیوزی لینڈ کے وزیرِ خارجہ نانیا مہوتا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیوزی لینڈ میانمار کی فوجی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا اور مطالبہ کرتا ہے کہ سیاسی قیادت کو فوری رہا کرتے ہوئے سویلین بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔

وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے میانمار کی فوجی قیادت پر آئندہ چند ہفتوں میں سفری پابندی عائد کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

یاد رہے کہ میانمار کی فوج نے یکم فروری کو ملک کی منتخب رہنما آنگ ساں سوچی کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک سال تک ملک میں ہنگامی صورتِ حال نافذ رہے گی اور اسی عرصے میں نئے انتخابات کرانے کے بعد اقتدار کامیاب نمائندوں کو سونپ دیا جائے گا۔ تاہم اس عرصے کے دوران تمام تر اختیارات فوج کے سربراہ کے پاس رہیں گے۔

میانمار کی فوج نے آنگ ساں سوچی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی وجہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو قرار دیا تھا۔

دوسری جانب آنگ سان سوچی کی گرفتاری اور فوجی حکومت کے قیام کے خلاف میانمار میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

فوجی حکومت کی جانب سے خبردار کیے جانے کے باوجود پیر کو ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے سیاسی حکومت کی بحالی اور آنگ سان سوچی سمیت دیگر گرفتار سویلین رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

XS
SM
MD
LG