رسائی کے لنکس

ایران: زاہدان میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم, 19 افراد ہلاک


وائس آف امریکہ کو موصول ہونے والی ویڈیو کا اسکرین شاٹ جس میں ایک زخمی شخص کو ابتدائی طبی امداد دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کو موصول ہونے والی ویڈیو کا اسکرین شاٹ جس میں ایک زخمی شخص کو ابتدائی طبی امداد دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان کی سرحد سے متصل ایرانی شہر زاہدان میں پولیس اور مشتعل مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 19 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

یہ واقعہ جمعے کو اس وقت پیش آیا جب سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان کی مکی مسجد سے نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکل رہے تھے۔

دبئی میں مقیم ایرانی حکومت کے ناقد اور بلوچستان نیشنل سالیڈیریٹی پارٹی (ایران) کے جنرل سیکریٹری حبیب اللہ سربازی نے وائس آف امریکہ فارسی سروس کو بتایا کہ کچھ مظاہرین نے نمازِ جمعہ کے بعد قریبی پولیس اسٹیشن کے باہر مظاہرہ کیا اور پتھر پھینکے جس کے جواب میں پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

سربازی کئی برسوں سے بلوچستان سیستان میں بلوچ اقلیت کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُنہیں اس تصادم کی اطلاع ایران میں مستند ذرائع نے دی ہے۔

اُن کے بقول ان مستند ذرائع نے اُنہیں بتایا کہ مقامی افراد ایک پولیس اہلکار کی جانب سے ایک نوجوان لڑکی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنانے پر مشتعل تھے۔

دوسر ی جانب ایران کے سرکاری میڈیا میں مظاہرین کو دہشت گرد اور علیحدگی پسند قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔

پاکستان کی سرحد سے ملحقہ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں حالیہ عرصے میں تشدد کے کچھ واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ایرانی حکام کے مطابق یہاں حکومت مخالف مسلح بلوچ باغیوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان سے ملحقہ سرحدوں پر اسمگلنگ میں ملوث گینگ بھی منظم ہیں۔

وائس آف امریکہ کو زاہدان میں جمعے کو ہونے والے اس تصادم کے عینی شاہدین کی جانب سے ویڈیوز بھی موصول ہوئی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خون میں لت پت افراد کو لے جایا جا رہا ہے جب کہ کچھ زمین پر پڑے ہیں اور انہیں ابتدائی طبی امداد دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم وائس آف امریکہ کو ان فوٹیجز کے مصدقہ ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی کیوں کہ ایران کے اندر وی او اے کو رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے۔

ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نمازی مسجد سے باہر نکل رہے ہیں اور اچانک فائرنگ کی آوازوں کے بعد لوگ بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور ویڈیو میں ایک شخص کو ایک گلی میں نذرِ آتش کی گئی ایک پولیس وین پر پتھر برساتے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ اس دوران مسلسل فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق سیستان بلوچستان کے گورنر حسین مودارس خیابانی نے تصادم میں پولیس اہلکاروں سمیت 19 ہلاکتوں جب کہ 20 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

ایک اور نیم سرکاری نیوز ایجنسی 'تسنیم' کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایران کے پاسدران انقلاب کے سیتان بلوچستان میں تعینات کمانڈر سید علی موسوی بھی شامل ہیں۔

ایران میں اپوزیشن نواز انسانی حقوق کی داعی نیوز ایجنسی 'ہرانا' نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ذرائع کے مطابق واقعے میں 40 افراد ہلاک جب کہ 20 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔

وائس آف امریکہ کو آزاد ذرائع سے اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی، تاہم یہ 16 ستمبر سے خاتون مہسا امینی کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد ملک گیر پرتشدد مظاہروں کے دوران پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

مہسا امینی کو ایران کی گشتِ ارشاد یعنی اخلاقی پولیس نے درست طریقے سے حجاب نہ کرنے کے شبہے میں 13 ستمبر کو تہران سے حراست میں لیا تھا جس کے چند روز بعد ان کا اسپتال میں انتقال ہو گیا تھا۔ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ہی ایران میں ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG