شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب میں ملنے والی کامیابی پراگرایک طرف حکومت کونقل مکانی کرنے والوں اور متاثرین کی بحالی کا مسئلہ درپیش ہے تو دوسری طرف میران شاہ اور میرعلی کے علاقوں میں جائیدادوں بالخصوص دکانوں اور دیگر تجارتی تعمیرات کی تقسیم پر تنازعات میں دن بدن شدت پیش آ رہی ہے۔
ایک اعلی انتظامی عہدیدار محمد انور شاہ شیرانی نے اتمان زئی وزیر اور داوڑ کے قبیلے کے سرکردہ راہنماﺅں پر مشتمل عمائدین کے ساتھ جرگے میں جائیدادوں اور دوکانوں کی تقسیم کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے، 12 رکنی کمیٹی میں شامل قبائلی رہنما نہ صرف ضرب عضب کے دوران تباہ ہونے والے مکانات اور تعمیرات کی قیمتوں کا تعین کریں گے بلکہ دہشت گردی اور فوجی کاروائی سے متاثر یا تباہ ہونے والے دکانوں اوردیگرتجارتی تعمیرات کے سلسلے میں بھی ایک مفصل رپورٹ اور ان کے مالکان کے بحالی یا ان کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے تجاویز پیش کریںگے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما ملک غلام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں ہر قبیلے کی اپنی جائیدادیں ہیں اور اُن کے بقول میران شاہ اور میرعلی میں پہلے سے تمام تر دکانیں اور مارکیٹیں فوجی کارروائی کے دوران تباہ ہو چکی ہیں لہذا اب مالکان کا مطالبہ ہے کہ ان کی تباہ شدہ دکانوں کی تعمیر حکومت ہی کرے۔
میران شاہ میں نو تعمیرشدہ پاکستان مارکیٹ کے حوالے سے کوئی پالیسی ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے جب کہ میرعلی میں نوتعمیر شدہ مارکیٹ میں 80 فیصد دکانیں حکومت کی تحویل میں ہیں۔
ایک اور قبائلی رہنما پیر عاقل زمان نے بھی کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ دیگرمتاثرین کے ساتھ ساتھ دکانوں اور دیگرتجارتی مراکز کے مالکان کو بھی معاوضہ دے۔
فوجی کاروائی کے دوران سکیورٹی فورسزنے میران شاہ اور میرعلی میں پرانے تجارتی علاقوں کے قریب ہزاروں کی تعدادمیں دکانیں تعمیر کی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دکانیں ان لوگوں کو الاٹ کی جائیں گی جو فوجی کاروائی اور دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔
قبائلی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مقامی قبائیلوں کی مشکلات کے ازالے کے لیے ہر ممکن اقدامات کی کوشش کی جا رہی ہے۔