رسائی کے لنکس

ناروے: حملوں سے دائیں بازو کے عناصر پر توجہ مبذول ہوئی


ہلاک ہونے والوں کی یاد میں لوگ پھول چڑھا رہےہیں
ہلاک ہونے والوں کی یاد میں لوگ پھول چڑھا رہےہیں

ناروے کے وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ یورپ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں گذشتہ ہفتے کے دہشت گردی کے حملوں کی تفتیش میں ہاتھ بٹا رہی ہیں جن میں کم از کم 76 افراد ہلاک ہوئے ۔جنز اسٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ اس واقعے سے ملک کی بنیادی اقدار کو اور زیادہ تقویت ملے گی۔ جمعے کے حملوں کا تعلق دائیں بازو کے انتہا پسند اینڈرز بہرنگ بریوک سے جوڑا گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر اس کے جو خیالات مبینہ طور پر شائع ہوئے ہیں، ان سے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر پر توجہ مبذول ہوئی ہے ۔

بدھ کے روز ناروے کے وزیرِ اعظم جنز اسٹولٹنبرگ نے کہا کہ ناروے میں سیکورٹی کے پورے معاملے کا جائزہ لیا جائے گا جس میں پولیس کی تنظیم اور اس کی گنجائش بھی شامل ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ جمعے کے حملوں سے ناروے میں زیادہ سیاسی شعور پیدا ہو گا۔’’ناروے ، تشدد کا جواب زیادہ جمہوریت، زیادہ آزادی اور شفافیت، اور سیاسی عمل میں وسیع تر سیاسی شرکت کی شکل میں دے گا۔‘‘

ان مہلک حملوں کی مزید تفصیلات مسلسل سامنے آ رہی ہیں اور اس فرد کی شخصیت کا تفصیلی خاکہ بھی ابھر رہا ہے جس نے ان حملوں کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا ہے۔ اینڈرز بہرنگ بریوک کے وکیلِ صفائی کا کہنا ہے کہ ان کے موّکل کی حرکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں۔

لیکن سیاسی تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس شخص کے خیالات جو بظاہر ان حملوں کا محرک بنے، یورپ میں دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر سے مطابقت رکھتے ہیں۔ بریوک نے مبینہ طور پر 1500 صفحات کا ایک منشور تحریر کیا تھا جو اس نے آن لائن شائع کر دیا۔ اس منشور میں مارکسزم، کثیرالثقافتی رجحانات، اور عالمگیریت کے خلاف زہر اگلا گیا ہے اور انتباہ کیا گیا ہے کہ اسلام کے پیرو کاروں نے اپنی آبادی میں اضافے کے ذریعے جنگی محاذ کھول رکھا ہے ۔

بریوک نے یورپ کو مسلمانوں کی یلغار سے بچانے کے لیے صلیبی جنگ شروع کرنے کو کہا ہے۔

لندن کی کنگسٹن یونیورسٹی میں یورپ کے دائیں بازو کی انتہا پسندی کے ماہر انڈریا مامون کہتے ہیں کہ بریوک کے خیالات یورپ میں انتہا پسند نظریات رکھنے والے بہت سے لوگوں کے خیالات کے مطابق ہیں۔’’پورے یورپ میں بائیں بازو کے انتہا پسند وں میں ، ایک خالص کمیونٹی کے خیالات ، پھیل گئے ہیں، یعنی ایسا یورپ جس میں صرف سفید فام لوگ رہتےہوں ۔ یہ لوگ یقیناً امیگریشن، اور اسلام کے سخت خلاف ہیں جس پر آج کل حملے کرنا بہت آسان ہے۔ وہ ایسا یورپ چاہتےہیں جس میں نقلِ مکانی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔‘‘

اس قسم کے خیالات سیاست میں قدم جما رہے ہیں۔ ناروے میں، دائیں بازو کی پراگریس پارٹی، پارلیمینٹ میں دوسری سب سے بڑی پارٹی ہے ۔ بریوک اس پارٹی کا رکن تھا لیکن بعد میں اس نے طے کیا کہ یہ پارٹی بہت زیادہ اعتدال پسند ہے اور پارٹی چھوڑ دی۔

سویڈن میں، ڈیموکریٹس گذشتہ سال اس نعرے کے ساتھ پارلیمینٹ میں آئے کہ سویڈن کو سویڈش ہی رہنے دو۔ فن لینڈ میں، ہر پانچ ووٹوںمیں سے ایک، قوم پرست ٹرو فنز کے پاس ہے ۔

اور یہ رجحان صرف اسکینڈی نیویا کے ملکوں کے تک محدود نہیں ہے۔ نیدر لینڈز کی تیسری سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر گریٹ ولڈرز کہتے ہیں کہ میں مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتا۔ مجھے تو اسلام سے نفرت ہے ۔

بریوک
بریوک

نیو انٹرنیشنلسٹ میگزین کے کے بسواس کہتے ہیں کہ گذشتہ عشرے کے دوران ایک نئی لہر آئی ہے۔’’آپ نے دیکھا کہ اٹلی میں، ڈنمارک میں، ہالینڈ میں، ایسی سیاسی پارٹیاں ابھری ہیں جو ان ملکوں کے قدامت پسند ووٹروں کے حلقوں سے باہر ہیں۔ ان پارٹیوں نے امیگریشن کو متاثر کیا ہے، انھوں نے اس زبان کو متاثر کیا ہے جو عوامی سیاستداں استعمال کرتے رہے ہیں۔‘‘

پورے یورپ میں، انتہائی دائیں بازو کے لوگوں نے بریوک کی مذمت کرنے والوں کا ساتھ دیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے باتیں کرتے ہوئے، ناروے کی پراگریس پارٹی کے سِو جینسن نے اس کی کارروائیوں کو قابلِ نفرت قرار دیا۔ دائیں بازو کے انتہا پسند بریوک کے نظریات سے بڑی حد تک اتفاق کر سکتے ہیں، لیکن اس کے ہتھکنڈوں سے نہیں۔ بسواس کہتے ہیں کہ ان دونوں میں تمیز کرنا ضروری ہے۔’’دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نظریات اب صرف ایک چھوٹی سی اقلیت تک محدود نہیں۔ یہ نظریات اب عام لوگوں کی سوچ میں داخل ہوتے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں، اسلامو فوبیا، یعنی اسلام دشمن خیالات کو تشدد کی کارروائیوں کے ساتھ جوڑنا غلط ہو گا۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ سیاست میں انتہا پسندی ایک خطرناک نقطۂ آغاز ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کا نتیجہ پُر تشدد انتہا پسندی کی شکل میں بر آمد ہو۔

XS
SM
MD
LG