رسائی کے لنکس

اوسلو مذاکرات کا مقصد طالبان حکومت کوتسلیم کرنا نہیں تھا: ناروے


طالبان وفد اوسلو روانگی سے قبل
طالبان وفد اوسلو روانگی سے قبل

ناروے کے وزیراعظم جونس گار ستورا نے اوسلو میں طالبان اور مغربی نمائندوں کے درمیان ہونے والے تین روزہ مذاکرات کو سنجیدہ اور معقول قرار دیا ہے۔ انہوں نے نیویارک میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تین روزہ مذاکرات کابل میں سخت گیرگروپ کی حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں انسانی تباہی کو روکنے کے سلسلے میں یہ پہلا قدم تھا، جس میں کابل کے 'ڈی فیکٹو حکام' سے رابطہ قائم کیا گیا۔

تین روزہ مذاکرات اتوار سے منگل تک جاری رہے اور اس میں طالبان وفد کی قیادت قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی نے کی۔ ان مذاکرات میں افغان سول سوسائٹی اور امداد دینے والے آزاد اداروں کے نمائندوں کے علاوہ مغربی سفار کاروں نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس کے دوران افغان حقوق کے سرگرم کارکنوں نے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا۔

ناروے کے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ تسلیم کرنے کا اقدام نہیں تھا، یہ محض حالات درست کرنے کے لیے ایک فریم ورک تھا جس میں طالبان کو ایک واضح پیغام دیا گیا،عالمی توقعات کی فہرست ترتیب دی گئی اور ان کی بات سنی گئی"۔

انہوں نے کہا کہ "بس یہی کچھ ہوا اور میرے خیال میں یہ ایک ایسا قدم تھا جس میں افغانستان میں صاحبِ اقتدار لوگوں کو جواب دہ ٹھہرایا گیا"۔

ان تین روزہ مذاکرات میں یورپی یونین، برطانیہ،فرانس،اٹلی،اقوام متحدہ اور میزبان ملک ناروے کے سفارت کاروں نے حصّہ لیا۔ بند کمرے میں ہونے والے ان اجلاسوں میں مختلف النوع موضوعات زیر بحث آئے۔

واضح رہے کہ ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا۔

ناروے کے وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ اس اسلامی گروپ کی میزبانی ان کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔

انہوں نے کہا کہ " مجھ سمیت یہ سب کے لیے ایک مشکل کام تھا، مگر اس کا متبادل یہ تھا کہ افغانستان کو یک و تنہا چھوڑ دیا جاتا ، دس لاکھ سے زیادہ بچّوں کو بھوک سے بلکتے دیکھا جاتا، افغانستان کی آدھی آبادی کو بے یار و مدد گار رہنے دیا جاتا۔ یہ کوئی اچھی آپشن نہیں تھی"۔ گار ستورا نے کہا کہ ہم نے ان پر واضح کر دیا کہ ہم مارچ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کو کھلا دیکھنا چاہتے ہیں اور انسانی ہمدردی کی امداد بلا روک ٹوک جاری رکھنا چاہتے ہیں"۔

پیر کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے وزیر خارجہ متقی نے کہا کہ ان کے وفد کی ملاقات افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں او رمغربی سفارت کاروں کے ساتھ کامیاب رہی۔ ناروے نے ہمیں جو موقع فراہم کیا وہ بجائے خود ایک کامیابی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ افغانستان کو انسانی ہمدردی کے تحت تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے امداد ملے گی۔

بین الاقوامی امداد دہندگان نے طالبان پر زور دیا ہے کہ مزید امداد صرف اس صورت میں ملے گی جب طالبان سب کو ملا کر حکومت تشکیل دیں گے، خاص طور سے خواتین کو شامل کریں گے۔


افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سفیرٹومس نکلسن نے متقی کے وفد سے ملاقات کے بعد اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ انہوں نے وفد کو بتایا کہ مارچ میں پورے ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول کھول دیے جائیں۔ افغانستان میں نیا تعلیمی سال وسط مارچ سے شروع ہوتا ہے۔

افغانستان کی صورت حال کے بارے میں بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہو ا جس کی صدارت ناروے کے وزیر اعظم نے کی ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوئیٹرس ،افغانستان کے لیے ان کے خصوصی نمائندے اور ناروے کے وزیر خارجہ نے کونسل کو بریفنگ دی۔

XS
SM
MD
LG