رسائی کے لنکس

ناروے :مشتبہ ملزم کی عدالتی کارروائی بند کمرے میں کرنے کا فیصلہ


غم سے نڈھال نارویجیئن شہریوں کی جانب سے ہلاک ہونے والوں کی یاد میں پھول رکھنے اور موم بتیاں روشن کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے
غم سے نڈھال نارویجیئن شہریوں کی جانب سے ہلاک ہونے والوں کی یاد میں پھول رکھنے اور موم بتیاں روشن کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے

ناروے میں جمعہ کو ہونے والی فائرنگ اور بم دھماکے کے مشتبہ ملزم کی عدالت میں پہلی پیشی کے موقع پر جج نے مقدمے کی کارروائی بند کمرے میں کرنے کا حکم دیا ہے۔

پیر کو جج نے کہا کہ عوام اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو مقدمے کی کارروائی میں شریک ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مشتبہ ملزم اینڈرز بیرنگ بریوک نے درخواست کی تھی کہ سماعت سب کے سامنے ہو تاکہ وہ فعل کے محرکات کی وضاحت کرسکے۔

الزام میں گرفتار مشتبہ شخص کے وکیل نے کہا ہے کہ ان کا موکل پیر کو عدالت کے روبرو اپنی پہلی پیشی میں اپنے جرم کے محرکات کے بارے میں بیان دے گا۔

ملزم اینڈرز بیرنگ بریوک پر دہشت گردی ک دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے جس میں اس پر دارالحکومت اوسلو میں واقع وزیرِاعظم کے دفتر کو بم حملے کا نشانہ بنانے اور یٹویا نامی جزیرے پر جاری نوجوانوں کے ایک کیمپ کے شرکاء پر فائرنگ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان واقعات میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

بریوک کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے دونوں حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا ہے تاہم اس کا موقف ہے کہ اس نے ایسا کرکے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔

وکیل کے بقول بریوک کا خیال ہے کہ اس کا یہ فعل "ظالمانہ" تھا تاہم اس کے بقول ایسا کرنا نارویجیئن معاشرے میں "انقلاب" لانے کے لیے ضروری تھا۔

جمعہ کو کیے گئے حملوں سے عین قبل ملزم اینڈرز نے انٹرنیٹ پرایک تفصیلی بیان جاری کیا تھا جس میں اس نے مسلمانوں کی نقل مکانی کے باعث یورپ کی (بقول اس کے) اسلامائزیشن پر برہمی ظاہر کی تھی۔ ملزم نے اپنے بیان میں جدت پسندوں کی جانب سے مختلف ثقافتوں کو اہمیت دینے پر انہیں عیسائیت کو دھوکا دینے کا مجرم گردانتے ہوئے ان سے بدلہ لینے کا عزم بھی ظاہر کیا تھا۔

ناروے :مشتبہ ملزم کی عدالتی کارروائی بند کمرے میں کرنے کا فیصلہ
ناروے :مشتبہ ملزم کی عدالتی کارروائی بند کمرے میں کرنے کا فیصلہ

ان حملوں نے ناروے کو ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہونے والے نازی قبضہ کے بعد سے تشدد کا کوئی ایسا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔

حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں گزشتہ روز دارالحکومت کے مرکزی گرجا گھر میں ایک دعائیہ تقریب بھی منعقد کی گئی جس میں ناروے کے بادشاہ ہیرالڈ، ملکہ سونجا اور وزیراعظم جینس اسٹالٹن برگ نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے حملوں کو ناروے کے لیے ایک قومی المیہ قرار دیا۔

غم سے نڈھال نارویجیئن شہریوں کی جانب سے سارا دن ہلاک ہونے والوں کی یاد میں گرجا گھر کے باہر پھول رکھنے اور موم بتیاں روشن کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

عیسائیوں کے روحانی پیشوا پاپ بینی ڈکٹ نے اپنے ایک پیغام میں واقعے پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے تمام لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ "نفرت کے راستے کو ترک کرکے شیطانی اثر سے باہر آجائیں"۔

XS
SM
MD
LG