رسائی کے لنکس

پانچویں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں نیوزی لینڈ کی جیت، سیریز دو دو سے برابر


نیوزی لینڈ نے پاکستان کو پانچویں اور آخری ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں 6 وکٹ سے شکست دے کر پانچ میچز پر مشتمل سیریز دو دو سے برابر کر لی۔ مہمان ٹیم کی جانب سے مارک چیپمین نے ناقابل شکست 104 رنز کی اننگز کھیلی اور پلیئر آف دی میچ کے ساتھ ساتھ پلیئر آف دی سیریز بھی رہے۔

نیوزی لینڈ کو سیریز کے پہلے دو میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد انہوں نے سیریز میں کم بیک کرتے ہوئے پہلے تیسرے میچ میں چار رنز سے گرین شرٹس کو ہرایا، اور اس کے بعد آخری میچ میں پاکستانی بالرز کو بے بس کرتے ہوئے چھ وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

راولپنڈی میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 5 وکٹ پر 193 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں کیویز نے مطلوبہ ہدف آخری اوور کی دوسری گیند پر چار وکٹ کے نقصان پر ہی حاصل کرلیا۔ سیریز کا چوتھا میچ موسم کی خرابی کی وجہ سے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی ٹیم سیریز جیت نہیں سکی۔

پانچ میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز ڈرا ہونے کے بعد اب دونوں ٹیموں کی توجہ ون ڈے انٹرنیشنل سیریز پر مرکوز ہوں گی جس کا آغاز 27 اپریل سے ہو رہا ہے۔ پہلے دو میچ 27 اور 29 اپریل کو راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے جس کے بعد کراچی میں 3، 5 اور 7 مئی کو باقی تین میچز کھیلے جائیں گے۔

یہ مسلسل دوسری ٹی ٹوئنٹی سیریز ہے جس میں پاکستان ٹیم فتح یاب نہ ہوسکی۔ گزشتہ ماہ افغانستان کے خلاف شاداب خان کی قیادت میں قومی ٹیم کو پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز میں شکست ہوئی تھی، جب کہ بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی کی واپسی کے باوجود کیویز یہ سیریز دو دو سے برابر کرنے میں کامیاب ہوئے۔

وکٹ کیپر محمد رضوان کے ناقابل شکست 98 رنز، پاکستان نے مقررہ اوورز میں 193 رنز بنائے

پنڈی میں کھیلے گئے سیریز کے پانچویں اور آخری ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں نیوزی لینڈ کے کپتان ٹام لیتھم نے پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ پاکستان نے وکٹ کیپر محمد رضوان کے ناقابل شکست 98 رنز کی بدولت 20 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 193 رنز بنائے۔

محمد رضوان اور بابر اعظم نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 51 رنز جوڑے جس میں سے 19 کپتان بابر اعظم نے بنائے۔ ان کے آؤٹ ہونے کے بعد نوجوان محمد حارث اور صائم ایوب بغیر کوئی رن بنائے بلیئر ٹکنر کا شکار ہوئے۔ لیکن اس کے بعد افتخار احمد اور عماد وسیم نے ذمہ داری سے بیٹنگ کرکے ٹیم کو مشکلات سے باہر نکالا۔

چوتھی وکٹ کی شراکت میں محمد رضوان نے 36 رنز بنانے والے افتخار احمد کے ساتھ 71 رنز اور اس کے بعد پانچویں وکٹ کی شراکت میں 31 رنز بنانے والے عماد وسیم کے ساتھ 68 رنز جوڑے۔

پاکستانی وکٹ کیپر صرف دو رنز کی کمی کی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کریئر کی دوسری سینچری بنانے سے محروم ہو گئے لیکن ان کی اننگز کی وجہ سے پاکستان نیوزی لینڈ کو 194 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب ہوئی۔

ایک موقعہ پر لگ رہا تھا کہ محمد رضوان باآسانی سو کا ہندسہ عبور کرلیں گے لیکن آخری اوور میں وہ صرف دو گیندوں کا سامنا کرسکے جس میں پہلی گیند پر انہوں نے سنگل رن لیا، اور آخری پر بائی کا رن لینے میں کامیاب ہوئے۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے بلیئر ٹکنر تین وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بالر رہے۔ ایش سودھی نے بھی ایک وکٹ حاصل کی جب کہ دو اوورز میں 29 رنز کے ساتھ رچن رویندرا سب سے مہنگے بالر ثابت ہوئے۔

مارک چیپمین نے نہ صرف کیویز کو مشکلات سے نکالا بلکہ میچ وننگ اننگز بھی کھیلی

194 رنز کے تعاقب میں نیوزی لینڈ کی کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب اننگر کےپہلے ہی اوور میں شاہین شاہ آفریدی نے دو کیوی بلے بازوں کو واپس پویلین بھیج دیا۔ پہلی گیند پر ان کا شکار بنے مہمان ٹیم کے کپتان ٹام لیتھم جب کہ پانچویں گیند پر ول ینگ چار رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔

چیڈ بوز نے کم بیک کی کوشش تو کی لیکن چوتھے اوور میں وہ 19 رنز بناکر عماد وسیم کا شکار ہوئے جس کے بعد مارک چیپمین اور ڈیرل مچل نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں 47 قیمتی رنز بنائے۔ ڈیرل مچل کے 15 رنز پر آؤٹ ہونے کے باوجود بھی چیمپین نے جارحانہ بلے بازی جاری رکھی اور جمی نیشم کے ساتھ اننگز کو سنبھالا۔

دونوں بلے بازوں نے 12 ویں اوور میں سو کا ہندسہ عبور کرتے ہی اپنی حکمتِ عملی بدلی اور پاکستانی بالرز کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ صرف 9 عشاریہ تین اوورز میں انہوں نے بغیر آؤٹ ہوئے 121 رنز بناکر نیوزی لینڈ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

ان دونوں کے سامنے پاکستان کے تمام بالرز بے بس نظر آئے ، ان بلے بازوں کی جارح مزاجی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے 50 رنز بنانے کے لیے کیویز نے 48 گیندوں کا سامنا کیا تھا، جب کہ اگلے 50رنز 24 گیندوں اور اس کے بعد کے 50 رنز صرف 18 گیندوں پر بنائے۔

پاکستان کی جانب سے شاداب خان نے دو آسان کیچز گرا کر مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ خاص طور پر 14 ویں اوور کی پانچویں گیند پر شاہین شاہ آفریدی کی بالنگ پر جو کیچ وہ تھامنے سے قاصر رہے، اس نے میچ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔

جب یہ کیچ ڈراپ ہوا، اس وقت مارک چیمپین 67 رنز پر بیٹنگ کررہے تھے لیکن یہ موقع ملنے کے بعد انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اپنی پہلی سینچری بنائی۔ انہوں نے سیریز میں اپنی تیسری نصف سینچری 30 گیندوں پر مکمل کی جب کہ اگلی 24 گیندوں پر 50 رنز بناکر سینچورین بننے میں کامیاب ہوئے۔

جمی نیشم نے بھی اپنے بیٹنگ پارٹنر کا خوب ساتھ دیا اور صرف 25 گیندوں پر 45 ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیل کر وکٹ پر موجود رہے۔ آخری تین اوورز میں نیوزی لینڈ کو 28 رنز درکار تھے اور ان کی چھ وکٹ باقی تھیں۔ ایسے میں مارک چیمپین نے شاہین شاہ آفریدی کے 18 ویں اوور میں 16 رنز بٹور کر نہ صرف کریئر کی پہلی سینچری اسکور کی بلکہ ٹیم کو ہدف کے قریب بھی لے گئے۔

مارک چیپمین کی 104 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز میں 11 چوکے اور 4 چھکے شامل تھے۔ انہیں میچ جتوانے پر تو پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ ملا ہی، پانچ میچز پر مشتمل سیریز میں مجموعی طور پر 290 رنز بنانے کی وجہ سے سیریز کا بہترین پلیئر بھی قرار دیا گیا۔

پاکستان کے بالرز کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ سوائے عماد وسیم کے جنہوں نے چار اوورز میں 21 رنز دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں، سب نے 9 رنز فی اوور سے زیادہ دیے۔ پہلے اوور میں دو وکٹیں گرانے والے شاہین شاہ آفریدی نے چار اوورز میں 48، جب کہ احسان اللہ اور حارث روؤف نے 39، 39 رنز دیے۔

لیگ اسپنر شاداب خان اس میچ میں بری طرح ایکسپوز ہوئے اور دو اوورز میں 29 رنز دے کر مہنگے ترین بالر ثابت ہوئے۔ آل راؤنڈر فہیم اشرف بھی 8 گیندوں پر 17 رنز دے کر کوئی وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

جب تک پاکستان خودغرض کھلاڑیوں کو منتخب کرتا رہے گا، کوئی ٹورنامنٹ نہیں جیتے گا!

پانچویں اور آخری میچ میں پاکستان کی شکست پر سوشل میڈیا صارفین کا دلچسپ ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ کسی نے احسان اللہ کو سیریز کا صرف آخری میچ کھلانے پر تنقید کی تو کسی نے محمد رضوان کی’سیلفش‘ بلے بازی کو قصوروار قرار دیا۔

اسپورٹس صحافی شاہد ہاشمی نے تو بابر اعظم کی کپتانی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ افتخار احمد کو اس وقت بالنگ کیوں نہیں دی گئی جب دو بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے کھلاڑی وکٹ پر موجود تھے۔

صارف باسط سبحانی نے ٹوئٹر پر اپنا سارا غصہ محمد رضوان پر نکالتے ہوئے لکھا کہ جو ٹیم ریکارڈز کے لیے کھیلتی ہے اسے شکست ہی ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں 210 رنز کی پچ پر پاکستان مزید 20 رنز جوڑ سکتا تھا، لیکن محمد رضوان کی سینچری شاید زیادہ ضروری تھی۔

ان کے بقول پاکستانی وکٹ کیپر نے اپنی سینچری مکمل کرنے کے لیے آخری 4 اوورز میں آدھی گیندوں (یعنی 11 گیندوں) پر صرف 14 رنز بنائے۔ انہوں نے احسان اللہ کو بھی آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ شعیب اختر سے زیادہ تیز بالنگ کرانے کے چکر میں مارے گئے۔

فلمساز و ہدایتکار نبیل قریشی نے شاہین شاہ آفریدی کے آخری اوور میں 16 رنز پڑنے پر کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ انہیں آخری اوورز میں بالنگ نہیں دینی چاہئے۔

اسپورٹس صحافی عمران صدیق کے خیال میں پاکستان کے پیس اٹیک نے ٹیم کو اہم میچ میں مایوس کیا۔

ج بکہ صارف ہیز ہارون کے بقول پاکستان ٹیم جب تک خودغرض کھلاڑیوں کو موقع دیتی رہے گی وہ کوئی ٹورنامنٹ نہیں جیت سکے گی۔

ایک اور اسپورٹس صحافی مزمل آصف کے خیال میں گزشتہ سیریز کے ٹاپ فاسٹ بالر احسان اللہ کو پہلے چار میچ میں ڈراپ کرکے اس کا اعتماد کم کیا گیا۔ اور سیریز کا آخری میچ کھلا کر بچا کچا اعتماد ختم کیا گیا۔ اگر کوئی اسے ایجنڈا کہے تو غلط نہیں ہوگا۔

صارف شہریار اعجاز کے خیال میں بالرز کی مایوس کن کارکردگی پاکستان کی شکست کی وجہ بنی، انہوں نے فیلڈنگ کو بھی اس شکست میں برابر کا ذمہ دار قرار دیا۔

XS
SM
MD
LG