رسائی کے لنکس

پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری پر اعتراضات کیا ہیں؟


پاکستان میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری ہو رہی ہے لیکن حکام کی بارہا یقین دہانیوں کے باوجود مردم شماری کے عمل میں مبینہ جانب داری اور شفافیت نہ ہونے کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔

بیشتر شکایات اور تحفظات کا اظہار صوبہ سندھ میں کیا جارہا ہے جہاں نہ صرف حکمراں جماعت اور وفاق میں اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کے ایوان میں ان خدشات کا اظہار کیا بلکہ متحدہ قومی موومنٹ اور پھر کئی قوم پرست جماعتوں نے بھی مردم شماری کے طریقۂ کار کی شفافیت اور اس عمل میں مبینہ خامیوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔

سندھ اسمبلی نے پیر کو مردم شماری پر تحفظات پر مبنی ایک قرار داد منظور کی تھی۔ اس قرارداد کے مطابق مردم شماری کا عمل شروع ہونے کے باوجود صوبائی حکومت کے کسی بھی ذمہ دار افسر کو حاصل شدہ ڈیٹا تک رسائی نہیں دی جارہی ہے جب کہ اس حوالے سے بنایا گیا ڈیش بورڈ بھی آپریشنل نہیں ہے۔

مردم شماری کے لیے قرارداد پیش کرنے والے صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو کے مطابق حالیہ سیلاب میں صوبے میں مجموعی طور پر 21 لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا جن میں سے 14 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ ان کے بقول ایسے میں یہ معلوم نہیں کہ ان تباہ شدہ گھروں کو کیسے گنا جائے گا اور ان کی جیو ٹیگنگ اور مارکنگ کیسے کی جائے گی۔

سندھ حکومت کا یہ اعتراض بھی ہے کہ موسم کے لحاظ سے نقل مکانی کرنے والی قابل ذکر بڑی آبادی کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے بھی کوئی طریقہ کار ترتیب نہیں دیا گیا۔

انہی خدشات پر چیف سینسس کمشنر ڈاکٹر نعیم الظفر نے بدھ کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے کراچی میں ملاقات بھی کی۔ تاہم اس ملاقات کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آ سکیں۔

اس سے قبل سندھ اسمبلی کی قرارداد سامنے آنے پر مردم شماری کمیٹی کی مانیٹرنگ کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا تھا جس میں سندھ حکومت کے خدشات دور کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ مردم شماری سے متعلق سندھ کے تحفظات کو دور کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان بھر میں یکم مئی سے شروع ہونے والا ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل یکم اپریل تک جاری رہے گا جس کے دوران شمار کنندگان گھر گھر پہنچ کر اپنے ٹیبلیٹس میں کوائف کا اندراج کر رہے ہیں۔

ملک میں ہونے والی اس ساتویں مردم شماری پر 34 ارب روپے کی لاگت آئے گی جو 2017 کی مردم شماری کے مقابلے میں دو گنا ہے۔

"خانہ شماری میں کئی گھروں پر مشتمل فلیٹس کو ایک گنا جارہا ہے"

مردم شماری و خانہ شماری پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم)نے بھی اعتراض اٹھایا ہے جس کا کہنا ہے کہ کراچی میں پورے پورے فلیٹس کو ایک گھر شمار کیا جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ شہر کی آبادی آدھی گنی جائے گی۔

ایم کیو ایم کا مطالبہ رہا ہے کہ خانہ و مردم شماری اور درست حلقہ بندیوں کے بغیر ووٹر لسٹیں جعلی شمار ہوں گی اور ایسے میں کوئی انتخابات بھی قابل قبول نہیں ہوں گے۔

اسی طرح کے خدشات سندھ میں قوم پرست جماعتوں نے بھی اٹھائے ہیں اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سندھ میں رہنے والے غیر ملکیوں کو مستقل آبادی کے طور پر شمار کرنے سے صوبے کی آبادی کا تناسب بدل جائے گا اور سندھی بولنے والی آبادی اقلیت میں بدل جائے گی۔

سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ بھی لگالیا ہے اور صوبے میں مردم شماری کے عمل پر نظر ثانی تک مردم شماری کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

'امید ہے اس بار مردم شماری پر اعتراضات نہیں ہوں گے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:30 0:00

ایس ٹی پی کے وائس چیئرمین گلزار احمد سومرو نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ کی حق حاکمیت چھیننے کے لیے سازش پر مبنی مردم شماری کرائی جا رہی ہے۔ اگر حکومت نے مردم شماری ملتوی نہ کی تو ان کی جماعت نتائج کو قبول نہیں کرے گی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ مردم شماری جیسی اہم قومی مشق پر سوالات اٹھے ہوں بلکہ یہ سوالات پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں اور اکثر اس کی گونج سندھ سے ہی سنائی دیتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں مردم شماری پر پائے جانے والے شکوک و شبہات نئے نہیں۔ ماضی میں ہونے والی غیر شفافیت کی وجہ سے صرف پانچ سال بعد ہی دوبارہ مردم شماری کرانا پڑی حالاں کہ آئین کے تحت یہ عمل دس سال بعد کرایا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے تحفظات کی بناء پر ملک میں 2017 کی مردم شماری کے نتائج کو اس شرط پر تسلیم کیا گیا تھا کہ ملک میں جلد نئی مردم شماری ہو گی تاکہ گزشتہ مردم شماری پر اٹھائے گئے تحفظات کا ازالہ کیا جاسکے۔

قوم پرست جماعت قومی عوامی تحریک کے مرکزی صدر لال جروار کہتے ہیں ڈیجيٹل مردم شماری کا فیصلہ وفاقی اداروں کا ہے اور پیپلز پارٹی وفاق کی اتحادی جماعت ہے۔اس لیے پیپلزپارٹی کی جانب سے سندھ اسمبلی سے ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے قرارداد کافی نہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی نے صرف ایم کیو ایم کی فرمائش پر مردم شماری کرانے کا مشترکہ مفادات کونسل سے فیصلہ منظور کرایا ہے جب کہ صوبے میں اس وقت بھی لاکھوں سیلاب متاثرین در بدر ہیں۔

شہری آبادی کے ماہر اور کراچی کے مشہور تعلیمی ادارے آئی بی اے میں استاد محمد توحید کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے عمل میں کئی طریقہ کار سے متعلق خامیاں بھی موجود ہیں جنہیں دور کیا جانا ضروری ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شرح پیدائش، شرح اموات اور اندرونی نقل مکانی جیسے متغیرات کے لیے جمع کیے گئے اعداد و شمار کی وجہ سے گنتی کی درستگی پر سوالیہ نشانات اٹھتے ہیں۔ جس میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

محمد توحید کے بقول، 2017 کی مردم شماری میں کراچی کے بہت سے رہائشیوں کو ان کے مستقل پتے کی بنیاد پر اپنے آبائی شہروں میں رہنے والے کے طور پر درج کیا گیا حالاں کہ وہ اصل میں کراچی میں ہی رہائش پذیر ہیں اور اس کے وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کراچی کی آبادی کم گنی گئی اور یوں اسمبلی کی نشستوں اور وسائل کی تقسیم میں کراچی کے مقابلے میں دیگرعلاقوں کی زیادہ نمائندگی ہوئی۔

ڈیجیٹل مردم شماری میں اصلاحات کے لیے سندھ اسمبلی سے منظور ہونے والی قرار داد میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بلاکس بنانے کی فارمیشن ، نقشوں میں پائی جانے والی خامیاں اور اس سے ملتی جُلتی چیزوں پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے والے صوبائی وزیر جام خان شورو کہتے ہیں مردم شماری کے عمل کو غیر جانب دار اور شفاف بنانے کے لیے مکمل طریقۂ کار وضع ہونا اور اس مقصد کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان باہمی رابطے پر زور دینا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG