جمعے کو امریکی عدالت عظمیٰ کی جانب سے ہم جنس پرستوں سے متعلق فیصلہ آنے کے بعد کہ ملک بھر کی تمام 50 ریاستوں میں ہم جنس پرست جوڑے شادی کرپائیں گے، لاکھوں امریکیوں نے خوشیاں منائیں۔ لیکن، دیگر لوگ صدمے اور غصے میں ہیں، جن میں ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار، معروف ریپبلیکن قانون ساز، ’سوشل کنزرویٹوز‘ اور کچھ مذہبی گروہ شامل ہیں۔
صدر براک اوباما نے اس فیصلے کو امریکہ کی فتح قرار دیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے یہ بات بھی تسلیم کی ہے کہ ’کچھ امریکی اس پر خوشیاں نہیں منا رہے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’مجھے اِس بات کا علم ہے کہ اس معاملے پر، پُرخلوص امریکی اب بھی مختلف قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔ کچھ باتوں پر اس کی مخالفت کی بنیاد خلوص پر مبنی اور مدتوں کے عقائد ہیں۔ ہم سب لوگ جو آج کی خبر کا خیر مقدم کرتے ہیں، اُنھیں اِس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیئے۔ رائے کے اختلاف کو تسلیم کیا جانا چاہیئے، ہمیں آزادی مذہب کے پختہ عزم کی قدر کرنی چاہیئے‘۔
قدامت پسندوں کی جانب سے فوری ردِعمل سامنے آیا، جن میں ٹونی پرکنز شامل ہیں، جو ’فیملی رسرچ کونسل‘ کے صدر ہیں۔ اُنھوں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ’افسوس کی حد تک اختیارات کا ناجائز استعمال‘ قرار دیا۔
پرکنز کے بقول، ’شادی کا معاملہ نہ صرف انسانی تاریخ میں رچا بسا ہوا ہے، بلکہ یہ حیاتیاتی اور سماجی حقیقت کا درجہ رکھتا ہے، جس سے بچے جنم لیتے ہیں، جن کی ماں باپ پرورش کرتے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’کسی قسم کا کوئی فیصلہ، سچ کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ عدالت کی یہ خام خیالی ہوگی کہ اُس نے عام پالیسی کے ایک متنازع معاملے کو حل کر دیا ہے۔ پانچ کروڑ امریکیوں کو رائے دہی کے حق سے محروم کرکے، عدالت نے دراصل اس معاملے کو الجھا کر سہ آتشہ بنا دیا ہے‘۔
امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینر، جن کا تعلق ریپبلیکن پارٹی سے ہے، کہا ہے کہ اُنھیں مایوسی ہوئی ہے کہ’سپریم کورٹ نے لاکھوں امریکیوں کی جمہوری طور پر منتخب رائے سے لاپرواہی برتی ہے، اور ریاستوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ شادی کے ادارے کی از سر نو تشریح کریں‘۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ’گے‘ شادیوں پر پابندی کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے، جن کے بارے میں کئی ریاستیں قانون سازی کر چکی ہیں۔ ان میں سے کچھ پابندیاں نچلی عدالتوں کی جانب سے آنے والے فیصلوں کے نتیجے میں منسوخ قرار دی جاچکی ہیں۔
اس معاملے پر رویپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار، ارکنسا سے سابق گورنر مائیک ہکابی نے سخت ردعمل دیا ہے، جنھوں نے توجہ دلائی ہے کہ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ4 -5کی شرح سے منقسم نوعیت کا تھا۔
ہکابی کے بقول، سپریم کورٹ نے انتہائی منقسم فیصلے میں شادی کی از سر نو تشریح کی ہے، جو کام سپریم کورٹ ہی کر سکتا ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’میں کسی شہنشاہی عدالت کے حکم کو قبول نہیں کرتا، جب کہ ہمارے ملک کے بانیوں نے برطانوی شاہی خاندان کو تسلیم نہیں کیا۔ ہمیں مزاحمت کرنی چاہیئے، اور عدالتی ظلم کو مسترد کرنا چاہیئے، پسپائی اختیار نہیں کرنی چاہیئے‘۔
فلوریڈا کے سابق گورنر، جیب بش نے کہا ہے کہ اُن کے خیال میں سپریم کورٹ کو فیصلہ دینے کے بجائے، اسے ریاستوں پر چھوڑ دینا چاہیئے تھا۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے ہمسائے کا لحاظ کریں اور دوسروں کی عزت کریں، اُن میں وہ بھی شامل ہیں جو زندگی بھر ساتھ رہنے کی قسم کھاتے ہیں‘۔
وسکونسن کے گورنر، اسکاٹ واکر، جو ممکنہ طور پر ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہیں، کہا ہے کہ یہ فیصلہ ایک بڑی غلطی ہے؛ اور تجویز دی کہ امریکی آئین میں ترمیم کرکے شادی کے مساوی حقوق کے معاملے پر عدالتوں کے اختیارات چھین لیئے جانے چاہئیں۔
تاہم، ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اور فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، مارکو روبیو بے کہا ہے کہ ’میں اس فیصلے سے متفق نہیں ہوں۔ لیکن، ہم ایک جمہوریہ میں رہتے ہیں اور قانون کی پاسداری ہمارا فرض ہے‘۔
کچھ مسیحی چرچ جو ’گے میریج‘ کے خلاف ہیں، اُن کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا ہے۔
چاڈ پیکنوڈ ’کیتھولک یونیورسٹی آف امریکہ‘ میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ خاص طور پر اِس کیتھولک چرچ کے لیے یہ بہت ہی مشکل فیصلہ ہے، ’کیونکہ یہ شادی سے متعلق بنیادی مغربی قانون کے خلاف ہے، جب کہ کیتھولک چرچ اسے درست نہیں مانتا۔ یہ چرچ کی سوچ سے متصادم ہے، جیسا کہ قدرت نے ایک مرد کو بنایا ہے۔۔۔ تاہم، یہ چرچ کے اداروں کے لیے قانونی یا ممکنہ طور پر قانونی چیلنج ہے، اور یہ ایسا معاملہ ہے جس پر کلیسا خصوصی نگاہ رکھے گی۔