رسائی کے لنکس

دھرنا ختم کرانے کے لیے فوجی قیادت سے رابطہ کیا جائے: خورشید شاہ


قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے منگل کو صحافیوں سے مختصر گفتگو میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس احتجاج کو ختم کرانے میں عسکری قیادت کی مدد لے۔

وفاقی دارالحکومت میں ایک مذہبی و سیاسی جماعت کے کارکنوں کے طرف سے گزشتہ لگ بھگ دو ہفتوں سے جاری دھرنے نے خاص طور پر اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کے شہریوں کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔

عدالتی حکم کے باوجود اب تک دھرنا ختم نہیں کرایا جا سکا ہے اور اس صورتِ حال میں حکومت کی عمل داری یعنی ’رٹ‘ پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے منگل کو صحافیوں سے مختصر گفتگو میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس احتجاج کو ختم کرانے میں عسکری قیادت کی مدد لے۔

’’میں حزبِ مخالف کے رہنما کے طور پر یہ کہوں گا کہ ہماری جو افواج ہیں، ہماری عسکری لیڈر شپ ہے ان سے رابطہ کیا جائے۔۔۔ قانونی، آئینی اختیار بھی ہے، ان کو بلایا جا سکتا ہے، ان سے بات کی جا سکتی ہے۔‘‘

'تحریکِ لبیک یا رسول اللہ' کی طرف سے ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں مبینہ تبدیلی پر یہ احتجاج شروع کیا گیا تھا۔ اب نہ صرف پرانے حلف نامے کو بحال کیا جا چکا ہے بلکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ختمِ نبوت سے متعلق قوانین کو مزید موثر بھی بنا دیا گیا ہے۔

لیکن حکومت کی یہ وضاحت احتجاج کرنے والوں کو تاحال مطمئن نہیں کر سکی اور مظاہرین کی قیادت کا اصرار ہے کہ حکومت وزیرِ قانون زاہد حامد کو اُن کے منصب سے برطرف کر دے۔

لیکن حکومت اس مطالبے کو مسترد کر چکی ہے۔

اب حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے علما و مشائخ سے مدد طلب کی ہے۔ اس سلسلے میں پیر کی شام اسلام آباد میں ایک اجلاس ہوا جس میں ایک بار پھر دھرنا ختم کرانے کی اپیل کی گئی۔

اس سے قبل پیر کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے کہا تھا کہ دھرنا ختم کرانے میں ناکامی یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کی"’رٹ ختم ہو چکی ہے۔"

تاہم وزیر داخلہ احسن اقبال یہ کہہ چکے ہیں دھرنا ختم کرانے کے لیے طاقت کا استعمال آخری آپشن ہو گا کیوں کہ اُن کے بقول حکومت کو ایسی معلومات ملی ہیں کہ ’’اس واقعے کا کچھ ملک دشمن اور سازشی عناصر فائدہ اٹھاتے ہوئے چاہتے ہیں کہ خدا نخواستہ کوئی لال مسجد یا ماڈل ٹاؤن جیسا سانحہ ہو جس سے حکومت کے لیے اور پاکستان کی ریاست کے لیے بحران پیدا کیا جا سکے۔‘‘

اُدھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعد اب سپریم کورٹ نے بھی جاری دھرنے کا نوٹس لے لیا ہے جب کہ شہری بھی مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اُن کی مشکلات کو کم کرنے اور جڑواں شہروں میں زندگی معمول پر لانے کے لیے حکومت فوری اقدامات کرے۔

XS
SM
MD
LG