رسائی کے لنکس

دھرنا اور حکومت کی عمل داری پر سوال


وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے عدالت کو یقین دہائی کروائی ہے کہ آئندہ کسی کو بھی اس طرح کی صورت حال پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پاکستان کی ایک اعلٰی عدالت کے حکم کے باوجود وفاقی دارالحکومت میں سیاسی و مذہبی جماعت تحریک لبیک کا دھرنا ختم کرانے میں ناکامی پر حکومت کو نہ صرف شہریوں بلکہ حزب مخالف کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے پیر کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں جاری ’لاک ڈاؤن‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت میں سے کسی کو اس کی پرواہ نہیں۔

جب کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دھرنے سے تو یوں لگتا ہے کہ حکومت کی عمل داری ختم ہو چکی ہے۔

’’یہ حکومت کی بہت بڑی کمزوری ہے، حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔۔ جو حکومت کے پاس آئینی طاقت ہے وہ اسے استعمال نہیں کر سکتی اور کچھ لوگوں نے اسلام آباد کو سیل کیا ہوا۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ اگر حکومت کارروائی نہیں کر سکتی تو اُسے سرکار چھوڑ دینی چاہیئے۔

تاہم وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرانا چاہتی ہے۔

’’ہماری خواہش ہے کہ اس مسئلے کا پر امن حل تلاش کیا جائے۔ چونکہ ربیع اول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور 12 ربیع اول کی تقریبات میں ہم نہیں چاہتے کہ کسی قسم کی کوئی کشیدہ صورت حال ہو ۔۔۔۔ میں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ہمیں کچھ وقت دیا جائے ہم انشا اللہ تعالیٰ عدالت کے حکم پر عمل درآمد کروائیں گے۔‘‘

اسلام ہائی کورٹ نے پیر کی صبح وزیر داخلہ احسن اقبال کو طلب کیا تھا، جس پر عدالت نے دھرنا ختم کرانے کے لیے حکومت کو مزید مہلت دے دی۔

لیکن عدالت عالیہ نے وفاقی سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو توہینِ عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے عدالت کو یقین دہائی کروائی ہے کہ آئندہ کسی کو بھی اس طرح کی صورت حال پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

’’ہمیں یہ معلومات ہیں کہ اس واقعہ کا کچھ ملک دشمن اور سازشی عناصر فائدہ اٹھاتے ہوئے چاہتے ہیں کہ خدانخواستہ کوئی لال مسجد یا ماڈل ٹاؤن جیسا سانحہ ہو جس سے حکومت کے لیے اور پاکستان کی ریاست کے لیے بحران پیدا کیا جا سکے جو کہ بہت برے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔‘‘

دھرنا ختم کرانے کے لیے وزیر داخلہ احسن اقبال نے علما و مشائخ سے اسلام آباد میں پیر کو طویل مشاورت کی جس کے بعد ایک مرتبہ پھر احتجاج کرنے والوں سے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی گئی۔ جب کہ علما کی طرف سے یہ بھی کہا کہ حکومت طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ختم نبوت سے متعلق نہ صرف پرانے حلف نامے کو بحال کر دیا گیا ہے بلکہ اس قانون کو مزید موثر بنایا گیا ہے اور اس میں پائے جانے والے سقم دور کر دیئے گئے ہیں۔

مذہبی و سیاسی جماعت ’تحریک لبیک یا رسول اللہ ‘ نے کئی دنوں سے اسلام آباد کا ’فیض آباد انٹرچینج‘ دھرنا دے کر بند کر رکھا ہے۔ احتجاج میں ایک اور جماعت سنی تحریک بھی شامل ہے۔

فیض آباد کی بندش سے خاص طور پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور لوگوں کے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

احتجاجی ریلی میں شریک راہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں کی گئی مبینہ تبدیلی پر وزیرِ قانون زاہد حامد کو برطرف کرے۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وزیرِ قانون کا کوئی کردار نہیں اور حلف نامے میں تبدیلی ایک "کلیریکل" غلطی تھی جس کی نشاندہی کے فوراً بعد ہی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک ترمیم کر کے پرانے حلف نامے کو بحال کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG