رسائی کے لنکس

بھارت: پارلیمانی انتخابات سے قبل شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کی تیاری، اپوزیشن کا اظہارِ تشویش


بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے اعلیٰ عہدے دار سے متعلق میڈیا میں آنے والی اس خبر پر سخت اعتراض اور تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وزارتِ داخلہ پارلیمانی انتخابات سے قبل شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کے ضوابط تیار کرکے اس قانون کو نافذ کردے گی۔

اپوزیشن کے مطابق یہ قانون آئین کے خلاف ہے اور اس کا مقصد 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں فائدہ اٹھانا ہے۔

بعض میڈیا رپوٹس کے مطابق سی اے اے کے ضوابط تقریباً تیار ہیں اور انہیں 26 جنوری سے قبل نوٹی فائی کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ متنازع قانون پورے ملک میں نافذ ہو جائے گا۔

اس سے قبل وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 27 دسمبر کو مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریاستی سوشل میڈیا اور آئی ٹی سیل کے ارکان کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ سی اے اے ملکی قانون ہے اور اس کے نفاذ کو کوئی روک نہیں سکتا۔

یاد رہے کہ سی اے اے 10 دسمبر 2019 کو لوک سبھا میں اور دو روز بعد راجیہ سبھا میں منظور کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کی وجہ سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، پارسی، بدھسٹ، مسیحی اور جین برادری کے لوگوں کو بھارت کی شہریت دی جائے گی۔

البتہ مسلمانوں کو اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ اُس وقت اس قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا تھا۔

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سینئر رہنما منیش تیواری نے بدھ کو کہا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کے آئین کی تمہید میں لفظ سیکولرزم موجود ہے وہاں مذہب کی بنیاد پر شہریت نہیں دی جا سکتی۔

ان کے بقول جب انہوں نے 2019 میں اس پر ہونے والی بحث میں حصہ لیا تھا تو یہی نکتہ ان کی بحث کی بنیاد تھا۔ سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف جو درخواستیں دائر ہیں ان میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ مذہب شہریت کے حصول کی بنیاد نہیں بن سکتا۔

یاد رہے کہ اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور متعدد درخواستیں عدالت میں دائر ہیں۔ حکومت نے گزشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرکے اس کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ملکی قانون کا ایک حصہ ہے۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری اور کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ پارلیمانی ضوابط کے تحت کسی بھی قانون کو چھ ماہ کے اندر نافذ کیا جانا چاہیے۔ لیکن سی اے اے کے ضوابط طے کرنے کی مدت میں نو بار توسیع کی گئی۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ ضوابط کو انتخابات سے قبل نوٹی فائی کر دیا جائے گا۔

ان کے بقول اس سے واضح ہے کہ یہ انتخابات سے عین قبل رائے دہندگان کو صف بند کرنے کی کوشش ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدر آباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ سی اے اے کا نفاذ کمزور برادریوں بالخصوص مسلمانوں، دلتوں اور غریبوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا ہے اور غیر آئینی ہے۔

ان کے بقول سی اے اے کو 'نیشنل پاپولیشن رجسٹر' (این پی آر) اور 'نیشنل رجسٹر آف سرٹی فکیٹ' (این آر سی) کے ساتھ ملا کر دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے تحت آپ کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہو گی۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری نے الزام لگایا کہ حکومت پارلیمانی انتخابات سے قبل فرقہ واریت کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد صرف انتخابی فائدہ اٹھانا ہے۔

دوسری جانب مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے میڈیا رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔

ان کے بقول پارلیمانی انتخاب سے قبل اس قسم کی باتیں عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ہیں۔

ریاستی وزیر ششی پانجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ممتا بنرجی یہ واضح کر چکی ہیں کہ مغربی بنگال میں سی اے اے نافذ نہیں ہوگا۔

بہار کے نائب وزیر اعلیٰ اور راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی یادو نے اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ انتخابات کی وجہ سے ہی سی اے اے کے ضوابط بنانے کی بات کہی جا رہی ہے۔

انہوں نے بھی اس قانون کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ انتخابات سے قبل ہی ہندو مسلم مسائل کیوں اٹھائے جاتے ہیں؟

سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمٰن برق نے اسے ایک شوشہ قرار دیا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سی اے اے نافذ کیا گیا تو ملک کے حالات اور خراب ہو جائیں گے۔

خیال رہے کہ حکومت اور بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت کسی بھی مذہبی برادری کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی۔

ان کے بقول پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلمانوں کے لیے بھارت کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ لہٰذا بھارت ان کو انسانی نقطۂ نظر سے شہریت دے گا۔ حکومت اس قانون کے نفاذ کے لیے پُرعزم ہے۔

بی جے پی صدر جے پی نڈا نے یہ بیان دیا تھا کہ جو لوگ اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دلت اور کمزور مخالف ہیں کیوں کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے جو آئیں گے وہ نچلی ذات کے ہوں گے اور انہی کو شہریت ملے گی۔

بعض تجزیہ کار اپوزیشن کے اس الزام کی تائید کرتے ہیں کہ پارلیمانی انتخابات سے قبل سی اے اے کے نفاذ کی بات کرنا مذہب کی بنیاد پر عوام کو خیمہ بند کرنا ہے تاکہ اکثریتی ہندوؤں کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔

سینئر تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن رویندر کمار ایڈووکیٹ کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس کا مقصد عوام کو بے وقوف بنانا ہے۔ وہ بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ چار سال گزر جانے کے باوجود حکومت ابھی تک اس کے ضوابط کیوں نہیں بنا سکی۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں بہت مایوس ہیں اسی لیے ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کیا جا رہا ہے اور اب سی اے اے کے نفاذ کی بات کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول حکومت کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہے اسی لیے جذباتی ایشوز کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں ایسی باتیں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے۔

نئی دہلی میں احتجاج فسادات میں تبدیل
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:57 0:00

واضح رہے کہ 2019 میں جب یہ قانون بنا تھا تو اس کے خلاف انسانی حقوق کے کارکنوں، اپوزیشن پارٹیوں، مسلمانوں اور دیگر برادریوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔

احتجاج کا آغاز نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر میں واقع شاہین باغ سے ہوا تھا جہاں کی خواتین نے مہینوں تک سڑک پر دھرنا دیا اور اسے جام کیے رکھا تھا۔ اس کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں خاص طور پر خواتین دھرنے پر بیٹھ گئی تھیں۔ اسی درمیان ملک میں کرونا کی وبا پھیل گئی تھی اور حکومت نے تمام دھرنے ختم کرا دیے تھے۔

بعد ازاں دھرنے میں شامل متعدد طلبہ رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی تھی جن میں سے اب بھی کئی افراد جیلوں میں ہیں۔

اس قانون پر بعض مسلم ممالک جیسے ایران، ترکی اور ملیشیا نے بھی اعتراض کیا تھا اور اسے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ امتیاز قرار دیا تھا۔

حکومت نے ان ملکوں کے اعتراضات کو بھارت کے اندرونی امور میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ حکومت نے یہ کہہ کر اس کا دفاع کیا تھا کہ اس قانون کو پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG