رسائی کے لنکس

ریاستی انتخابات سے قبل مودی پر 'مذہب کارڈ' استعمال کرنے کے الزامات کیوں لگ رہے ہیں؟


بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ وارانسی کے دوران ایک مندر کے نئے کوریڈور کے افتتاح پر اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ حکمراں جماعت ریاستی انتخابات میں کامیابی کے لیے مذہب کارڈ استعمال کر رہی ہے۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پیر کو اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی میں بڑی دھوم دھام کے ساتھ ہندوؤں کی تاریخی عبادت گاہ کاشی وشوناتھ مندر کے کوریڈور کا افتتاح کیا تھا۔

انہوں نے مذہبی نعروں کے درمیان دریائے گنگا میں پوجا کی اور ڈبکی لگائی۔ اس کے بعد دریائے گنگا سے پانی لے جا کر مندر میں مورتی کو غسل دیا۔

انہوں نے وہاں تعمیر کیے جانے والے مندروں کے کاریگروں اور مزدوروں کے ساتھ ظہرانہ کیا اور ان پر پھول برسائے اور پھر عوام سے خطاب کیا۔

وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر میں ہندو مذہبی کتابوں کے منتخب اقتباسات کے حوالے دیے۔ انہوں نے وارانسی میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے مبینہ مظالم کا ذکر کیا اور کہا کہ جب اورنگزیب آتا ہے تو شیوا جی بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

انہوں نے ایک اور مسلم شخصیت سید سالار مسعود غازی کا نام لیا اور کہا کہ جب کوئی سالار مسعود آگے بڑھتا ہے تو سہیل دیو جیسے راجہ یہاں کے اتحاد کی طاقت کا احساس کرا دیتے ہیں۔

وزیرِ اعظم کے اس پورے پروگرام کو نیوز چینلز پر براہ راست دکھایا گیا۔

مبصرین کے خیال میں وزیرِ اعظم مودی کا یہ پروگرام اتر پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دیا گیا تھا۔ اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں مارچ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

'مودی نے نامکمل کوریڈور کا افتتاح کیا'

اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے ایک ریاستی لیڈر اجے رائے نے مودی کے اس قدم پر تنقید کی اور کہا کہ ابھی کوریڈور کا کام نامکمل ہی ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسمبلی انتخابات کے پیشِ نظر عجلت میں اس کے افتتاح کا فیصلہ کیا۔

خیال رہے کہ اجے رائے 2014 اور 2019 میں وارانسی کے پارلیمانی حلقے سے نریندر مودی کے خلاف کانگریس کے امیدوار تھے۔

انہوں نے اخبار 'نیشنل ہیرالڈ' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے نامکمل کوریڈور کا افتتاح بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی جانب سے سیاسی مقاصد کے لیے ہندو روایات کو تبدیل کرنے کی ایک مثال ہے۔

رپورٹس کے مطابق کاشی وشوناتھ کوریڈور کے لیے آٹھ سو کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ابھی صرف 399 کروڑ روپے ہی خرچ ہوئے ہیں اور کافی کام باقی ہے۔

سماجوادی پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی وزیرِ اعظم پر تنقید کی اور کہا کہ یہ پروجیکٹ ان کے دورِ حکومت میں منظور کیا گیا تھا۔ وقت آنے پر وہ اس کا ثبوت پیش کر دیں گے۔ بی جے پی نے ان کے اس بیان کی مذمت کی ہے۔

سینئر تجزیہ کار گنیش پانڈے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیرِ اعظم مودی نے اس کوریڈور کے افتتاح سے الیکشن کے دوران ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے بی جے پی کو تھوڑا بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اتنا نہیں کہ الیکشن کا منظر نامہ بدل جائے اور اسے 2017 کی مانند پھر زبردست اکثریت سے کامیابی مل جائے۔

ان کے مطابق ابھی الیکشن ڈھائی ماہ دور ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے بی جے پی کو کتنا فائدہ ہو گا اور یہ بات بھی ہے کہ ہندوتوا کا معاملہ یہیں نہیں رکے گا ابھی اور آگے جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران جب بی جے پی کو دشواری محسوس ہوتی ہے تو پھر وہ مذہبی کارڈ استعمال کرتی ہے۔

ان کے مطابق اس قسم کے بیانات آخری مرحلے کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے 2017 کے الیکشن کے موقع پر انتخابی مہم کے دوران شمشان اور قبرستان کی بات کی تھی۔

گنیش پانڈے نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی جو صورتِ حال ہے اس میں بی جے پی دوسری پارٹیوں سے آگے ہے۔ البتہ سماجوادی پارٹی کو کافی عوامی حمایت مل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی یا نریندر مودی کو ہرایا نہیں جا سکتا۔ 2017 کے بعد بی جے پی کو 10 اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی ہے۔ حالیہ شکست بنگال میں ہوئی ہے۔

ان کے مطابق بی جے پی رہنماؤں کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر 2022 میں یو پی کا الیکشن ہار گئے تو 2024 کا پارلیمانی الیکشن بھی ہار جائیں گے۔ اس لیے بی جے پی کی جانب سے ہر وہ کام کیا جائے گا جس سے اس کو انتخابی فائدہ پہنچے۔

خیال رہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور حکمراں جماعت کے بیشتر رہنما ہندوتوا کو آگے بڑھانے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اُن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت میں ہر مذہب کے رہنے والے مساوی حقوق حاصل ہیں۔

'لگتا ہے کہ اتر پردیش کے الیکشن کی انتخابی مہم مودی ہی چلائیں گے'

دیگر مبصرین کے خیال میں کاشی وشوناتھ کوریڈور کے افتتاح سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اب یو پی کا الیکشن مودی لڑیں گے۔ انہوں نے اس الیکشن کی پوری ذمہ داری لے لی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق جس انداز میں نریندر مودی نے کوریڈور کا افتتاح کیا ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یو پی کے اسمبلی انتخابات میں سارے فیصلے مودی ہی کریں گے اور انھی کے چہرے پر الیکشن لڑا جائے گا۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت سماجوادی پارٹی کو بہت زیادہ عوامی حمایت مل رہی ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کی سابقہ حکومت بہت اچھی تھی بلکہ یہ ہے کہ عوام کو بی جے پی کا متبادل چاہیے اور وہ متبادل سماجوادی پارٹی بن رہی ہے۔

گنیش پانڈے اس سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت بی جے پی کی فرقہ وارانہ منافرت کی سیاست سے خوش نہیں ہے۔ وہ ملک کے موجودہ ماحول کو بدلنے کے حق میں ہے۔

رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ بہت زیادہ فرقہ وارانہ سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔ لیکن بی جے پی کے اندر کا ہی ایک طبقہ ہندوتوا کے ایجنڈے پر الیکشن لڑنے کے حق میں ہے۔

گنیش پانڈے اور بعض دیگر مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر چہ کسانوں کی تحریک ختم ہو گئی ہے لیکن اس کا اثر یو پی کے الیکشن پر پڑے گا۔ مظفر نگر فسادات کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں جو نفرت پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہو گئی ہے، دونوں میں اتحاد ہو گیا ہے اور دونوں نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

مبصرین کی اکثریت اس رائے کی حامی ہے کہ کاشی وشوناتھ کاریڈور جیسے پروگراموں سے کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا اور اس سے بی جے پی کو زیادہ فائدہ نہیں ہو گا۔

ایک دوسرے تجزیہ کار اجے کمار نے اس سے انکار کیا کہ مودی نے کاشی وشوناتھ کوریڈور کے افتتاح سے الیکشن میں ہندوتوا کا ایجنڈا طے کر دیا ہے۔

ان کے خیال میں وزیرِ اعظم مودی اور وزیرِ اعلیٰ یوگی دونوں مذہبی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لہٰذا اس قدم کو سیاسی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

ان کے خیال میں کاشی وشوناتھ کا مندر ایک تاریخی مندر ہے اور مودی نے جس کوریڈور کا افتتاح کیا ہے اس کا سنگِ بنیاد انہوں نے مارچ 2019 میں رکھا تھا۔ یہ ان کا پسندیدہ منصوبہ ہے۔ ابھی اس پر کام چل رہا ہے۔ لیکن عوامی ضرورت کے پیشِ نظر انہوں نے اس کا افتتاح کیا۔

ان کے خیال میں یہ صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے وارانسی میں ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG