رسائی کے لنکس

امریکہ میں 4 ہفتوں کے دوران سوا دو کروڑ افراد بے روزگار


لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار بند ہے اور سال کے آغاز تک مزید لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار بند ہے اور سال کے آغاز تک مزید لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکہ میں بے روزگار ہوجانے والوں کی تعداد میں ہر ہفتے لاکھوں افراد کا اضافہ ہو رہا ہے اور چار ہفتوں میں یہ تعداد سوا دو کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ حکومت نے کروڑوں ٹیکس گزاروں کو ریلیف دینے کے لیے ان کے بینک اکاؤنٹس میں 1200 ڈالر فی کس جمع کرائے ہیں۔ لیکن، لاکھوں محروم بھی رہ گئے ہیں۔

محکمہ محنت کے مطابق، گزشتہ ہفتے ملک بھر میں 52 لاکھ افراد نے بے روزگاری انشورنس کلیم داخل کیے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چار ہفتے پہلے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد پہلے ہفتے میں 33 لاکھ، دوسرے ہفتے میں 69 لاکھ اور تیسرے ہفتے میں 66 لاکھ افراد نے بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دی تھی۔

امریکہ میں 2008 کی معاشی کساد بازاری کے بعد فروری 2010 سے فروری 2020 تک روزگار کے دو کروڑ 28 لاکھ مواقع پیدا ہوئے تھے۔ لیکن اب ایک ماہ میں بے روزگار ہوجانے والوں کی تعداد دو کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے، جس نے ایک عشرے کی معاشی ترقی پر پانی پھیر دیا ہے۔

واضح رہے کہ ان اعداد و شمار میں وہ لاکھوں لوگ شامل نہیں جو کئی وجوہ کی بنا پر بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواست نہیں دے سکتے۔ بے شمار تارکین وطن بھی ان میں شامل نہیں جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں۔

امریکہ میں 1930 کے عشرے کی کساد بازاری کے بعد کبھی اس طرح کی صورتِ حال پیش نہیں آئی۔ لیکن، تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ یہ محض آغاز ہے اور صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار بند ہے اور سال کے آغاز تک مزید لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تو بھی ویکسین یا علاج دستیاب ہونے تک معاشی سرگرمیاں پہلے کی طرح بحال نہیں ہوسکیں گی۔ صحت کے مسائل کے علاوہ امریکی عوام بحران کے دور میں بچت کرتے ہیں اور پیسے خرچ نہیں کرتے جس سے معیشت سست پڑ جاتی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، فیڈرل ریزرو بینک آف فلاڈیلفیا کے صدر پیٹرک ہارکر نے کہا ہے کہ اس وقت امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 20 فیصد کو پہنچ رہی ہے۔ اگر کاروبار زندگی جلد بحال ہوجائے تب بھی سال کے آخر تک یہ شرح 10 فیصد کے آس پاس رہے گی۔

دوسری جانب حکومت نے آٹھ کروڑ ٹیکس گزاروں کے اکاؤنٹس میں 1200 ڈالر فی کس منتقل کر دیے ہیں، لیکن لاکھوں افراد کو تکنیکی مسائل کی وجہ سے یہ رقم نہیں مل سکی۔ بہت سے لوگوں کے کھاتوں میں غلط رقم منتقل ہوئی جبکہ بے شمار والدین نے شکایت کی ہے کہ انھیں حکومت کے وعدے کے مطابق 500 ڈالر فی بچہ نہیں ملے۔

وزیر خزانہ اسٹیو منوچن نے وائٹ ہاؤس میں نیوز بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ بدھ تک ان بیشتر ٹیکس گزاروں کو رقم ادا کردی جائے گی جنھوں نے گوشواروں کے ساتھ بینک اکاؤنٹ نمبر فراہم کیا ہوگا۔ اس کے لیے محکمہ ٹیکس آئی آر ایس کو ہدایات جاری کی گئی تھیں۔

رقم کی منتقلی میں رکاوٹ کی ایک وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ بہت سے ٹیکس گزاروں نے جن ایپس یا ویب سائٹس کی مدد سے گوشوارے جمع کرائے، وہ ان کی درست معلومات آئی آر ایس کو فراہم نہیں کر سکیں۔ اب آئی آر ایس نے اپنی ویب سائٹ پر اس بارے میں معلومات دی ہے کہ جن لوگوں کو ریلیف کی رقم نہیں ملی، وہ کیسے اپنے بینک اکاؤنٹ کا نمبر بتا کر اسے حاصل کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG