رسائی کے لنکس

پاک افغان امن کوششوں میں ’خواتین بھی شامل‘


پاکستانی سینیٹ کی رکن ستارہ ایاز کہتی ہیں کہ معاشرے کے ہر طبقے میں خواتین موجود ہیں اور اُن کے بقول عورتوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اُن کی مؤثر آواز دونوں ملکوں کی قیادت تک پہنچے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کے لیے سول سوسائٹی، قانون سازوں اور میڈیا کے نمائندوں کی سطح پر رابطوں اور غیر رسمی سفارت کاری کے تحت بات چیت کے ادوار ہوتے رہے ہیں۔

کابل اور اسلام آباد کے درمیان تناؤ میں کمی اور دونوں ملکوں کو درپیش دہشت گردی سمیت دیگر مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی پاکستانی اور افغان خواتین بھی اب ان کوششوں میں شامل ہو گئی ہیں۔

’’پاک-افغان ویمن پیس ایکسچینج پروگرام‘‘ کے تحت پیر کو اسلام آباد میں پانچ روزہ مباحثے کا آغاز ہوا جس میں 17 افغان اور 15 پاکستانی خواتین حصہ لے رہی ہیں۔

’’پاک۔افغان وویمن پیس ایکسچینج پروگرام‘‘ میں شریک خواتین
’’پاک۔افغان وویمن پیس ایکسچینج پروگرام‘‘ میں شریک خواتین

افغانستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’ویمن نالج اینڈ لیڈر شپ‘‘ کی بانی حریہ ثمیرہ حامدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں امن اور دوطرفہ مسائل کے حل میں خواتین کے کردار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

’’اگر دو حکومتوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے تو آپ اس میں خواتین کا کردار نہیں دیکھتے۔۔۔ لیکن اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی ہے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی خواتین کے ساتھ مل کر باہمی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اسلام آباد آئی ہیں، تاکہ مشترکہ چینلجوں کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے۔

بات چیت کے اس سلسلے میں شامل پاکستانی سینیٹ کی رکن ستارہ ایاز کہتی ہیں کہ معاشرے کے ہر طبقے میں خواتین موجود ہیں اور اُن کے بقول عورتوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اُن کی مؤثر آواز دونوں ملکوں کی قیادت تک پہنچے۔

’’دونوں ملکوں کو اپنی عداوتیں ختم کرنا ہوں گی۔۔۔ ایک دوسرے پر تنقید بند کرنا ہو گی۔۔۔ اگر ہم یہ نہیں ختم کریں گے تو دونوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔‘‘

’’پاک۔افغان وویمن پیس ایکسچینج پروگرام‘‘ میں شریک خواتین
’’پاک۔افغان وویمن پیس ایکسچینج پروگرام‘‘ میں شریک خواتین

بات چیت کے اس سلسلے کی پاکستان میں میزبان اور غیر سرکاری تنظیم ’اویئر گرلز‘ کی شریک بانی گلالئی اسماعیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی ہو یا دیگر مسائل، اُن سے خواتین بھی اتنی ہی متاثر ہوئی ہیں جتنا کہ مرد۔

اس لیے اُن کے بقول خواتین کو سرکاری سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا حصہ ہونا چاہیے۔

’’جب طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوتے ہیں وہاں سے بھی عورتوں کو نکال دیا جاتا ہے، جب ملکوں کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں وہاں سے بھی خواتین بھی کو نکال دیا جاتا ہے۔۔۔۔ اب ہم آپس میں بیٹھیں گے اور مسائل کا حل ڈھونڈنیں گے۔‘‘

پاک افغان امن کوششوں میں ’خواتین بھی شامل‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:54 0:00

دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان مذاکرات کی میزبانی ’اویئر گرلز‘ نامی غیر سرکاری تنظیم اور اُس کی شراکت دار تنظیمیں کر رہی ہیں۔

امن کے حصول کے لیے دونوں ملکوں کی خواتین کے درمیان مذاکرے کا یہ دوسرا دور ہے۔ اس سے قبل مئی 2017ء میں بات چیت کے پہلے سلسلے کا انعقاد کابل میں ہوا تھا۔

پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ اُن کے باہمی رابطے اُن کاوشوں کا حصہ ہیں جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کے خاتمے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

بعض خواتین نے یہ رائے بھی دی کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان امن کے لیے ضروری ہے کہ دونوں پڑوسی ملک کسی ثالث کے بغیر براہ راست ایک دوسرے کا موقف سنیں اور مشکلات کا حل تلاش کریں۔

XS
SM
MD
LG