پاکستان میں سیاسی اور کاروباری حلقے بھارت میں براہ راست سرمایہ کاری کی اجازت کے فیصلے کو ایک تاریخی پیش رفت قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے نا صرف دو طرفہ تجارتی روابط فروغ پائیں گے بلکہ سفارتی تعلقات میں تناؤ بھی کم ہو گا۔
بھارت کی وزارت تجارت کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق دفاع، جوہری توانائی اور خلائی تحقیق و ترقی کے شعبوں کو چھوڑ کر پاکستانی کاروباری حضرات دیگر تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔
پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے چیئرمین غلام علی کہتے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی خطے میں غربت دور کرنے کی کوششوں، صحت، تعلیم اور دیگر سماجی شعبوں کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔
ان کے بقول تعلقات معمول پر آنے سے پاکستان اور بھارت میں دفاع پر اٹھنے والے اخراجات کا رخ ان شعبوں کی طرف موڑنے میں بھی مدد ملے گی۔
’’دونوں ملکوں کے درمیان جو تناؤ ہے اور گزشتہ کئی عشروں سے جو کشیدگی چلی آ رہی ہے میں اُمید کرتا ہوں کہ اس فیصلے سے اس کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو دیرینہ مسائل ہیں کشمیر اور پانی کے ایشو کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘
لیکن ملک میں کاروباری حلقوں نے پاکستانی سرمایہ کاری کی اجازت کے بھارتی فیصلے کے فوری ثمرات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں حقیقی پیش رفت کے لیے دونوں ملکوں کو ابھی بہت سے مراحل طے کرنا ہیں۔
پاک بھارت مشترکہ بزنس فورم کے چیئرمین امین اکبر ہاشوانی نے توقع ظاہر کی ہے کہ بھارتی حکومت کے اعلان کے بعد پاکستان بھی بھارت کے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے جوابی اقدامات کرے گا۔
’’آپ اگر زمینی حقائق دیکھیں تو کاروباری ویزہ ابھی فری نہیں ہوا، اشیاء کی ترسیل کے کچھ مسائل ہیں اگرچہ کہ واہگہ اٹاری بارڈر کھل گیا ہے لیکن ابھی بھی کچھ رکاوٹیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس (سرمایہ کاری) کی اجازت دینے کے فیصلے کا اثر ضرور ہو گا لیکن اس میں وقت لگے گا۔ تجارت کا حجم بھی اتنا نہیں بڑھا ہے جتنا ہونا چاہیئے اس لیے پہلے تجارت بڑھتی ہے اور پھر اس کے بعد سرمایہ کاری آتی ہے۔‘‘
امین ہاشوانی نے تاثر کو غلط قرار دیا کہ سرمایہ کاری کی اجازت کے بعد پاکستان کی صنعتیں بھارت منتقل ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ان کے خیال میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کی پیداوار جیسے شعبوں میں دوطرفہ کاروباری شراکت داری کے امکانات روشن ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے نا صرف دو طرفہ تجارتی روابط فروغ پائیں گے بلکہ سفارتی تعلقات میں تناؤ بھی کم ہو گا۔
بھارت کی وزارت تجارت کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق دفاع، جوہری توانائی اور خلائی تحقیق و ترقی کے شعبوں کو چھوڑ کر پاکستانی کاروباری حضرات دیگر تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔
پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے چیئرمین غلام علی کہتے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی خطے میں غربت دور کرنے کی کوششوں، صحت، تعلیم اور دیگر سماجی شعبوں کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔
ان کے بقول تعلقات معمول پر آنے سے پاکستان اور بھارت میں دفاع پر اٹھنے والے اخراجات کا رخ ان شعبوں کی طرف موڑنے میں بھی مدد ملے گی۔
’’دونوں ملکوں کے درمیان جو تناؤ ہے اور گزشتہ کئی عشروں سے جو کشیدگی چلی آ رہی ہے میں اُمید کرتا ہوں کہ اس فیصلے سے اس کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو دیرینہ مسائل ہیں کشمیر اور پانی کے ایشو کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘
لیکن ملک میں کاروباری حلقوں نے پاکستانی سرمایہ کاری کی اجازت کے بھارتی فیصلے کے فوری ثمرات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں حقیقی پیش رفت کے لیے دونوں ملکوں کو ابھی بہت سے مراحل طے کرنا ہیں۔
پاک بھارت مشترکہ بزنس فورم کے چیئرمین امین اکبر ہاشوانی نے توقع ظاہر کی ہے کہ بھارتی حکومت کے اعلان کے بعد پاکستان بھی بھارت کے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے جوابی اقدامات کرے گا۔
’’آپ اگر زمینی حقائق دیکھیں تو کاروباری ویزہ ابھی فری نہیں ہوا، اشیاء کی ترسیل کے کچھ مسائل ہیں اگرچہ کہ واہگہ اٹاری بارڈر کھل گیا ہے لیکن ابھی بھی کچھ رکاوٹیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس (سرمایہ کاری) کی اجازت دینے کے فیصلے کا اثر ضرور ہو گا لیکن اس میں وقت لگے گا۔ تجارت کا حجم بھی اتنا نہیں بڑھا ہے جتنا ہونا چاہیئے اس لیے پہلے تجارت بڑھتی ہے اور پھر اس کے بعد سرمایہ کاری آتی ہے۔‘‘
امین ہاشوانی نے تاثر کو غلط قرار دیا کہ سرمایہ کاری کی اجازت کے بعد پاکستان کی صنعتیں بھارت منتقل ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ان کے خیال میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کی پیداوار جیسے شعبوں میں دوطرفہ کاروباری شراکت داری کے امکانات روشن ہیں۔