رسائی کے لنکس

جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ


جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ
جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ

پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی ممانعت سے متعلق معاہدے کے تحت اس نوعیت کی اپنی تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کیا ہے۔

اکتیس دسمبر 1988ء کو طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی حکومتیں ہر سال یکم جنوری کو ان فہرستوں کے تبادلے کی پابند ہیں۔

وزارت خارجہ سے اتوار کو جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی تنصیبات کی فہرست اسلام آباد میں قائم بھارتی ہائی کمیشن کے متعلقہ عہدے دار کے حوالے کی گئی، جب کہ بھارت نے اپنی فہرست نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو پیش کی۔

سرکاری بیان میں جوہری تنصیبات کی تعداد یا دوسری معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

اطلاعات کے مطابق ان فہرستوں میں صرف سویلین تنصیبات بشمول جوہری بجلی گھروں اور ان کے جائے وقوع کی نشاندہی کی جاتی ہے، جب کہ فوجی نوعیت کی تنصیبات اور دیگر تفصیلات کا تبادلہ نہیں کیا جاتا ہے۔

جوہری تنصیبات پر حملہ نا کرنے کا یہ معاہدہ یکم جنوری 1991ء کو نافذ العمل ہوا اور فہرستوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ بھی اس ہی روز کیا گیا تھا۔

برطانیہ سے 1947ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں، جب کہ مئی 1998ء میں پہلے بھارت اور پھر جواباً پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے تھے۔

جنوبی ایشیا کے ان دونوں روایتی حریفوں کے تعلقات نومبر 2008ء میں بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے 2004ء میں شروع کیا گیا جامع امن مذاکرات کا عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔

تاہم سال 2011ء کے اوائل میں دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئی اور اعلیٰ عہدے داروں کی وفود کی سطح پر بات چیت کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے وزراء خارجہ کے مابین مذاکرات بھی ہوئے جس میں طرفین نے دوطرفہ تعلقات میں ایک نیا باب رقم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔

جامع امن مذاکرات کے تحت دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان روایتی اور جوہری حادثاتی جنگ کے امکانات کو کم کرنے کے بارے میں گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں دو روزہ بات چیت بھی ہوئی تاہم اس کے اختتام پر کسی نمایاں پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا۔

پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’روایتی اور جوہری ہتھیاروں سے متعلق اعتماد سازی کے موجودہ اقدامات یا (سی بی ایمز) کا جائزہ لیا گیا جب کہ باہمی طور پر قابل قبول اضافی سی بی ایمز کے امکانات تلاش کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔‘‘

اجلاس میں عہدے داروں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کو کم کرنے کے معاہدے کی آئندہ پانچ سال کے لیے توسیع کرنے کی سفارش کا فیصلہ بھی کیا۔

دریں اثنا پاکستان اور بھارت نے اپنی اپنی جیلوں میں قید ایک دوسرے کے شہریوں کی فہرستوں کا تبادلہ بھی کیا ہے۔

ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو ہونے والا یہ تبادلہ دونوں ملکوں کے درمیان مئی 2008ء میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت کیا جاتا ہے جس میں قیدیوں کو استغاثہ کی سہولت فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG