پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ماضی کی نسبت بہتری تو آئی تھی لیکن ان میں ایک بار پھر تناؤ دیکھا جا رہا ہے، جب کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تعلقات میں بہتری کے لیے اپنی اپنی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک ایسی ہی کوشش اسلام آباد میں منعقدہ دو روزہ ایک غیر سرکاری مذاکرے میں بھی دیکھنے میں آئی۔
مذاکرے میں دونوں جانب کے شرکا نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پائے جانے والے عدم اعتماد کو ختم یا کم کرنے کے لیے عوامی رابطوں کو بڑھایا جانا بہت ضروری ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں اشرف غنی کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد افغانستان کے پاکستان سے تعلقات میں قابل ذکر پیش رفت دیکھی گئی لیکن رواں سال کابل کی طرف سے ایک بار پھر اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی "آئی ایس آئی" کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جانے لگے۔
اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے ہاں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے لیے عسکریت پسند افغان سر زمین استعمال کر رہے ہیں۔
مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تجارت خرم دستگیر خان نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں امن و خوشحالی کی بار ہا یقینی دہانی اور لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی برسوں تک میزبانی کرنے کے باوجود پاکستان کے بارے میں منفی تاثر بہرحال موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے ہاں دہشت گردوں کی سرکوبی اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے اور دونوں ملکوں کے مابین سلامتی کے خدشات اور تحفظات کے باوجود حالات گزشتہ برس کی نسبت بہتر ہیں۔
"آئندہ دنوں یا مہینوں میں ان چیلنجز پر قابو پانا ہمارا مقصد ہے، لیکن میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ افغانستان کے ساتھ مشترکہ امن اور خوشحالی کا عزم پچھلے سال کی نسبت مضبوط ہوا ہے اور ہم اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔"
تقریب میں اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر جانان موسیٰ زئی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے دونوں جانب کے بیانیے کا عملی نمونہ پیش نہیں ہو سکا ہے لیکن ان کے بقول یہ تاثر بھی غلط ہے کہ دوطرفہ تعلقات اور ان میں پیش رفت بالکل رک گئی ہے۔
انھوں نے بھی اعتماد سازی کے لیے دوطرفہ رابطوں کو فروغ دینے پر زور دیا۔