رسائی کے لنکس

پاکستان اور امریکہ کے پاس مل کر کام کرنے کے سوا کوئی دوسرا 'آپشن' نہیں: معید یوسف


 معید یوسف، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر وزیر اعظم پاکستان
معید یوسف، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر وزیر اعظم پاکستان

پاکستان کے قومی سلامتی امور کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا ’آپشن‘ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن وزیرِ اعظم عمران خان کو کال کریں تو خوش آمدید، نہ کریں تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔

معید یوسف جمعرات کو واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں پاکستان امریکہ تعلقات کے موضوع پر ہونے والی ایک گفتگو میں شریک تھے۔

یاد رہے کہ معید یوسف نے حال ہی میں برطانوی اخبار 'فنانشنل ٹائمز' کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ کے صدر نے ایک ایسے اہم ملک کے وزیرِ اعظم سے اب تک بات کیوں نہیں کی جس کے بارے میں خود امریکہ کا یہ کہنا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں اس کا کردار نہایت اہم ہے۔

اخبار کے مطابق، انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ فون کالز اور سیکیورٹی تعلقات رعایتیں ہیں، تو اُن کے بقول ’’پاکستان کے پاس بھی آپشنز ہیں۔‘‘

دوسری جانب 'فنانشنل ٹائمز' نے بائیڈن انتطامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے بتایا تھا کہ کئی عالمی رہنما ایسے ہیں جن سے صدر بائیڈن بات نہیں کر سکے ہیں اور وہ مناسب وقت پر پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے بات کریں گے۔

معید یوسف نے واشنگٹن کے تھنک ٹینک میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے ساتھ گفتگو میں فنانشل ٹائمز میں رپورٹ ہونے والے اپنے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے پاس القاعدہ اور داعش سے متعلق مل کر کام کرنےکے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان سے متعلق 1990 کی دہائی والی غلطیاں دوہرائی گئیں تو ہمیں تاریخ اس بات پر معاف نہیں کرے گی۔

رچرڈ اولسن کے اس سوال پر کہ ان کے امریکہ کے حالیہ دورے کے کیا مقاصد ہیں، اور کیا وہ پیش رفت سے مطمئین ہیں، معید یوسف نے کہا کہ مئی میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر سے ان کی ملاقات میں طے ہوا تھا کہ ہم جامع طور پر تعلقات کو کیسے آگے بڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکہ پاکستان کو کسی تیسرے ملک، چین یا افغانستان کے تناظر میں دیکھے۔ ان کے بقول، 'ہم معین اہداف اور ٹائم لائین چاہتے ہیں'۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام سے ان کی بات چیت مثبت، تعمیری اور حقیقت پسندانہ رہی۔

امریکی صدر بائیڈن کی کال کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ہم یہاں بامعنی معاملات پر بات کر رہے ہیں اور علامتی معاملات یا ’آپٹکس‘ پر نہیں جانا چاہتے۔

’’اگر بائیڈن کال کریں تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے،‘‘ لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ایسا نہ ہو تو بھی ہمیں اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ ہم باہمی تعلقات میں آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر اعتماد میں کمی یا کوئی اور وجہ ہوتی تو میں امریکہ کا دورہ نہ کر رہا ہوتا۔

رچرڈ اولسن کے اس سوال پر کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے پاس کیا منصوبہ ہے، ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ اہم ہے کہ ہم امن مذاکرات کی جانب بڑھیں اور ان لوگوں کو مذاکرات کے کمرے میں جگہ دیں جو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ امریکہ اس معاملے کو اپنے منظقی انجام تک پہنچانے تک اس سارے مرحلے کی قیادت کرے۔

انہوں نے حالیہ دنوں میں افغان عہدیداروں کی جانب سے پاکستان کے کردار کے حوالے سے سامنے آنے والے بیانات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں سیاسی تصفیے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔

ان کے بقول، پاکستان کا مقصد افغانستان میں تشدد کا خاتمہ اور جامع سیاسی تصفیہ ہے۔

واضح رہے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھارت کے حالیہ دورے میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان اب بھی افغان طالبان پر مؤثر اثر و رسوخ رکھتا ہے اور امریکہ کو امید ہے کہ اسلام آباد، طالبان کو جنگ بندی اور مذاکرات پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا تاکہ جنگجو طاقت کے ذریعے اقتدار پر قابض نہ ہو سکیں۔

معید یوسف نے یو ایس آئی پی کی نشست میں دیگر امور پر بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مستقبل کے لئے پاکستان کا وژن جیو اکنامکس یعنی خطے کی معیشت کے تناظر میں ہے اور اس کے لیے وہ خطے میں استحکام، علاقائی رابطے میں اضافہ اور دنیا کے ساتھ ترقی میں اشتراک چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بھارت مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہو، اور کشمیر میں اپنے اقدام کو واپس لے تو بھارت کے ساتھ بات ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بھارت کے رویے میں اخلاص نظر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں چین کی طرف سے یہ نہیں کہا گیا کہ امریکہ کے ساتھ کام نہ کریں۔ ہم سب کے ساتھ مل کر کرم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کی چین کے ساتھ تجارت پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن امریکہ میں پاکستان سے چین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان کو کیوں گرے لسٹ سے نکالا نہیں گیا۔ ہم نے بہترین پرفارم کیا اور اس میں ہمارا ہی مفاد ہے۔اس معاملے میں بھارتی وزیر نے زیادہ بہتر کہا کہ انہوں نے سیاسی طور پر ہمیں گرے میں رکھا۔ کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ ٹیکنیکلی ہم اس لسٹ میں کیوں ہیں۔

معید یوسف سے جب یہ پوچھا گیا آیا پاکستان طالبان پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ مزاکرات کے ذریعے کسی تصفیے کو قبول کریں، تو انھوں نے کہا کہ ''پاکستان اتنا کچھ ہی کر سکتا تھا، جتنا ہم نے کیا ہے''۔

حالیہ مہینوں کے دوران امریکی اور پاکستانی اہلکاروں کے درمیان بات چیت ہوتی رہی ہے۔ ان ملاقوں کے دوران افغانستان ہی موضوع بحث رہا ہے، اور دونوں ہی ممالک نے افغانستان کی صورت حال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

گزشتہ ماہ، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل مارک ملی نے متنبہ کیا تھا کہ حکمت عملی کی نوعیت کی صورت حال تبدیل ہوئی ہے، جس میں طالبان کے جنگجوؤں نے افغانستان کے ضلعی مراکز کے نصف کے قریب رقبے پر قبضہ کر لیا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے انسپکٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی صورت حال اتنی ہی سنگین ہے جیسا کہ متنبہ کیا گیا تھا، اور طالبان کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابی کے نتیجے میں افغان حکومت کو ایک ''بحرانی صورت حال'' کا سامنا ہے۔

تاہم، امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ طالبان کی اس برتری سے کوئی ''پیشگی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا''۔

ادھر، رواں ہفتے کے آغاز پر افغان مفاہمت سے متعلق امریکہ کے نمائندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ''افغان حکومت طالبان سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ ساتھ ہی، طالبان افغاستان کو فتح کرکے حکومت نہیں بنا سکیں گے، جسے افغان عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو''۔

XS
SM
MD
LG