رسائی کے لنکس

فوج کے سربراہ نے ’11 دہشت گردوں‘ کی سزائے موت کی توثیق کر دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ مجرمان دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم بشمول مسلح افواج کے اہلکاروں اور اسکولوں پر حملوں کے علاوہ عام شہریوں کے اغوا کی وارداتوں میں ملوث تھے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 11 مزید ’’دہشت گردوں‘‘ کی سزائے موت کی توثیق کردی ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی طرف سے منگل کو جاری بیان کے مطابق جن مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی وہ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم بشمول مسلح افواج کے اہلکاروں اور اسکولوں پر حملوں کے علاوہ عام شہریوں کے اغوا کی وارداتوں میں ملوث تھے۔

بیان کے مطابق ان تمام ’’دہشت گردوں‘‘ کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے۔

دہشت گردی میں ملوث افراد کے مقدمات کی سماعت کے لیے گزشتہ سال کے اوائل میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جن کے تحت اب تک دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث درجنوں مجرموں کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔

فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں اور بعض وکلاء کی طرف تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ کیوں کہ اُن کا ماننا ہے کہ یہ عدالتیں ملک میں متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہیں۔

تاہم پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایسی عدالتوں کا قیام ضروری تھا، جو صرف دو سال کے لیے بنائی گئی ہیں۔

پاکستان میں 2008 سے 2014 تک سزائے موت کے قیدیوں کی سزاؤں پر عمل درآمد پر غیر اعلانیہ پابندی تھی لیکن دسمبر 2014 میں پشاور کے ایک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد یہ پابندی ختم کر دی گئی۔

دسمبر 2014ء کے بعد سے اب تک پاکستان میں 300 سے زائد قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2015 میں جن تین ممالک میں سب سے زیادہ سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا اُن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ صرف اُن افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا جن کے خلاف تمام عدالتی کارروائی مکمل ہو چکی تھی اور اُنھیں اپنی صفائی کا بھی پورا موقع دیا گیا۔

XS
SM
MD
LG