رسائی کے لنکس

قیام پاکستان کے 70 سال، کچھ دکھ ابھی باقی ہیں


پاکستان اور بھارت کی آزادی کو 70سال بیت گئے لیکن جب جب یوم آزادی آتا ہے، ہجرت کرنے والے بزرگوں کو بہت سے دکھ یاد آجاتے ہیں۔ اپنوں کو کھو دینے کا دکھ، موت سے زیادہ بھیانک مناظر کے ساتھ پاکستان پہنچنے کا سفر، جو رشتے دار اور اہل خانہ سرحدوں کی دونوں جانب تقسیم ہوگئے ان سے ملنے میں دشواری۔۔۔

پاکستان میں پیر کو 70 واں جشن آزادی منایا گیا جبکہ بھارت میں’ یوم آزادی‘ منگل کو منایا جائے گا۔ اس جشن سے دونوں ممالک کی تاریخ جڑی ہوئی ہے۔ 70سال پہلے دونوں ممالک کی عوام نے اپنی مرضی سے اپنی پسند کی سرزمین رہنے کے لئے چنی۔ بھارت سے لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان اور پاکستان سے لاکھوں ہندوؤں نے سرحدیں عبور کیں اور یوں یہ دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی کہلائی۔

ہجرت کے سبب بے شمار خاندان سرحدوں کی دونوں جانب بٹ گئے۔ کچھ گھرانے پاکستان چلے آئے تو کچھ خاندانوں نے وہیں رہنا پسند کیا۔ پاکستان میں بھی یہی ہوا جن ہندوؤں نے بھارت میں رہنے کو ترجیح دی وہ یہاں سے چلے گئے لیکن جاتے جاتے اپنے انگنت رشتے دار پاکستان میں ہی چھوڑ گئے۔

ہجرت کے اس واقعے کو 70سال ہو گئے ہیں لیکن اب بھی دونوں جانب کے بے شمار خاندان اپنوں کی محبت سے سرشار ہو کر آزادنہ ملنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک جانب ویزا کا مرحلہ انتہائی سخت ہے تو دوسری جانب ہجرت کر کے آنے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں آج بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ’قبول‘ کئے جانے کا ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ وہ سب کچھ لٹا پٹا کر پاکستان آئے حتیٰ کہ والدین ، بہن بھائیوں اور دوسرے رشتے داروں کو انہی کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا گیا، سفر میں انہوں نے انتہائی مصیبتیں جھیلیں لیکن نئے وطن کی محبت کم نہ ہوئی، اس کے باوجود انہیں ’پانچویں قوم‘ کی حیثیت سے قبول کرنے پر کوئی آمادہ نہیں۔

یہی گلہ پاکستان سے بھارت ہجرت کرنے جانے والے ہندوؤں کو بھی ہے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ’ ہم یہاں آ تو گئے لیکن ہمیں ’قبول‘ کرنے والا کوئی نہیں۔ شک کی نگاہیں ہمارا دن رات پیچھا کرتی ہیں۔ بہتر زندگی کا خواب لیکر وہ بھارت گئے تھے مگر وہاں کوئی کام دینے تک کو تیار نہیں۔ نہ ان کے سر پر چھت ہے نہ دو وقت کی روٹی وہ پرسکون انداز میں کھا سکتے ہیں۔ ‘

نئ دہلی میں مقیم آصف فہمی نامی شہری نے برطانوی خبررساں ادارے رائٹر سے تبادلہ خیال میں کہا کہ ہمارے پیارے کراچی میں مقیم ہیں لیکن اب حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ ہم آزادنہ مل بھی نہیں سکتے اور اگر ہمارا کوئی پیارا انتقال بھی کر جائے تو ہمیں اس کے جنازے میں شرکت کیلئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔‘‘

آصف فاطمی مزید کہتے ہیں کہ’’ ایک وقت تو ایسا بھی تھا جب ہم ان سے فری ہو کر بات چیت بھی نہیں کرسکتے تھے۔‘‘آصف فاطمی کے اہل خانہ ان لاکھوں خاندانوں میں سے ایک ہیں جس کے کچھ افراد’ ادھر‘ اور کچھ’ ادھر‘ تقسیم ہو کر رہ گئے۔

دوسری جانب کراچی کی 75سالہ ایک خاتون شہری ریحانہ ہاشمی کہتی ہیں ’’اس وقت مجھے ’تقسیم ‘کا مطلب بھی پتہ نہیں تھا کیوں میری عمر کم تھی۔میرے بھائی نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے۔ ہمارے اہل خانہ نے کراچی میں پناہ لی۔ ہمارے والد بھارتی ریلوے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے، انہوں نے اپنے قریبی رشتے داروں کو خبرباد کہا اور پاکستان آ بسے لیکن انہوں نے اپنے رشتے داروں سے مراسم ختم نہیں کئے۔ سن 1990 میں جب میرے شوہر خورشید صاحب کا انتقال ہوا تو ہمارے ایک کزن فہمی صاحب میرے شوہر کی تدفین میں شرکت کرنا چاہتے تھے، انہیں ویزا ملا بھی لیکن اتنی دیر میں کہ جب یہاں آئے تو تدفین بھی ہو چکی تھی۔ ‘‘

ریحانہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ دونوں جانب کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آنے کے خواہشمند ہیں لیکن کبھی سفری مسائل، کبھی ویزا کی سختیاں اور کبھی سیاسی حالات یا قوم پرستوں کی سخت گیر ی، بیانات اور فسادات انہیں ایسا کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ممبئی میں سن 2008 میں ہونے والے دھماکے و حملے اور سن 2001 میں ہوئے انڈین پارلیمنٹ حملے جیسے واقعات پر الزام تراشیاں دوریاں بڑھنے کا سبب ہیں ۔

چھیانوے سالہ سید اختر علی صاحب ان افراد میں شامل ہیں جن کی پاکستان آنے والی ٹرین پر 70 سال پہلے دوران سفر شرپسندوں نے حملہ کردیا تھا ۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں کہا ’’جس ٹرین میں ہم سوار تھے وہ پوری کی پوری ’کاٹ ‘دی گئی۔ صرف میں اور ایک چھوٹا بھائی لاشوں کے نیچے پڑے ہونے کی وجہ سے بچ گئے۔ ‘‘

وہ مزید کہتے ہیں ’’ایک دکھ اور ہمیں برداشت کرنا پڑا اور وہ تھا چھوٹی بہن حسنہ کا جو صرف پانچ سال کی تھی۔ حملے کے وقت وہ گم ہو گئی اور ہم سے ہی نہیں خاندان بھر سے بچھڑ گئی۔ ٹرین میں نیم مردہ کچھ لوگ تھے مگر بے ہوش اور زخمی۔ ہمیں کئی دن تک اسپتال میں رہنا پڑا ۔‘‘

’’بعد میں کسی نہ کسی طرح لاہور کے والٹن مہاجر کیمپ میں چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑئے کئی دن تک حسنہ کو ڈھنڈتے رہے۔ تصویر کوئی تھی نہیں۔ بس نظروں میں بسی ہوئی تھی ۔ ’’

’ماں باپ اور باقی بہن بھائیوں کے کٹے پیٹے مردہ جسموں کے دیکھنے کے بعد بس اپنے چھوٹے بہن بھائی کو سنبھالنا تھا۔ میرے خیال میں والدین چھوٹوں کو میری رکھوالی میں دے گئے تھے ۔‘‘

چھوٹا بھائی ساتھ تھا تو بہن کا ہا تھ چھٹ چکا تھا۔ ہر جگہ اس کا خاکہ لکھوا چکے تھے۔ دوماہ گزر گئے۔ بہن نہ مل سکی۔ یہاں تک کہ اسے بھی مردہ سمجھ لیا۔

لاہور سے دل اچاٹ ہوا تو کراچی آ بسے۔ تیسرا ماہ شروع ہی ہوا تھا کہ لاہور سے فون آ گیا کہ یہاں ایک بچی ملی ہے جو اپنا نام حسنہ بتا رہی ہے۔ آپ کے بتائے ہوئے خدوخال سے ملتی ہے۔ اتنا سننا تھا کہ بھاگم بھاگ لاہور پہنچے اور بہن کو زندہ سلامت دیکھ کر سجدے میں گر پڑے۔

’’آج ستر سال ہو رہے ہیں لیکن ہر رمضان میں جیسے وہ تمام مناظر نہ سونے دیتے ہیں نہ ہی رونے ۔ ماں باپ بہن بھائیوں کا اس طرح کٹ مرنا آج تک بھلائے نہیں بھولتا۔‘‘

سراج فاطمہ کو بھی ستر سال پہلےکے واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔ وائس آف امریکہ سے ان واقعات کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں’’ہم لوگ سسوان ضلع بدایوں کے رہنے والے ہیں، 1947 میں پاکستان بننے کے اعلان کے ساتھ ہی خاندان اور گھر میں یہاں آنے کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی۔ ایک لگن تھی کہ اپنے وطن جائیں گے جہاں کھلی فضاء میں سانس لے سکیں گے، اپنی مرضی سے اپنا وطن، اپنا گھر اور اپنا معاشرہ قائم کرسکیں گے ۔‘‘

وہ ایک لمحے کے لئے سانس لینے کی غرض سے رکیں پھر دوبارہ سلسلہ وہیں سے جوڑتے ہوئے بولیں ’’ہمارے گھر والوں کے ساتھ ساتھ مامون جان کا گھرانہ بھی پاکستان آنے کا فیصلہ کرچکا تھا لیکن اس وقت تک سن 51 شروع ہوچکا تھا۔ پہلے پروگرام بنا کہ بحری جہاز سے سفر کریں گے چنانچہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی تک و دو شروع ہوگئی، اس دوران سارا سامان بندھ گیا لیکن ہمارے والد عبید الرحمٰن صاحب کے پاسپورٹ میں کوئی غلطی ہوگئی لہذا انہیں روک لیا گیا ۔ ‘‘

’کئی دن بعد خدا خدا کر کرکے ابا کا پاسپورٹ ملا تو پھر سامان بندھنے لگا لیکن اس بار ٹرین سے سفرکرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سہسوان سے آگرہ اور پھر وہاں سے مونا باؤ تک جانے کے لئے ٹرین پکڑنا تھی۔ خاندان کے بڑے ہمارے ساتھ اسٹیشن تک آئے تھے۔ ٹرین کیا تھی سمجھ لیں مال گاڑی تھی۔ لوگ تھے کہ چڑھے چلے آ رہے تھے ۔ ہمیں حکم یہ ہی تھا کہ بھائی کا ہاتھ نہ چھوٹے۔ خیر ،وہ سفر بھی جیسے تیسے تمام ہوا۔ ہم خود اس وقت بارہ تیرہ سال کے تھے۔ ہمارے پاس کھانے کے ساتھ ساتھ بکسے (صندوق ‘تھے ۔ بہت کچھ یاد تو نہیں لیکن مونا باؤ سے کراچی تک کے سفر کا حال بہت برا تھا ۔‘

مونا باؤ پہنچتے ہی ایک نئی مصیبت کھڑی ہوگئی۔ اسپیشل ٹرین مونا باؤ تک کی تھی۔ آگے پاکستان سے ٹرین آنا تھی۔ ٹرین آئی بھی لیکن چار پانچ ہزار لوگوں کے لئے ناکافی تھی۔ ایک جم غفیر تھا جو گاڑی پر چڑھنے کے لئے زور آزمائی کر رہا تھا۔ ہماری والدہ بیمار تھیں۔ ہمارے والد نے لوگوں سے کہا کہ انہیں بیٹھا لیں لیکن انھوں نے صرف والدہ کو چڑھانے کی ہامی بھری، والد صاحب کو منع کر دیا ۔‘‘

’’ مونا باؤ کی حالت بدترین تھی ۔ نا پانی ،نا سائے دار جگہ۔ خاندان کے خاندان تھے کہ ریت پر پڑے تھے۔ ریگستانی مٹی پر پاوں رکھیں تو گھٹنے تک پاؤں زمین میں دھنس جائیں۔ کوئی چیز رکھیں تو اس کا بھی کچھ پتا نہ چلتا۔ رفائے حاجت کے لئے جانا ہو تو بھی کوئی بندوبست نہیں۔ پردہ برقرار رکھیں تو کیوں کر؟ کھانا ہم بس دو سے تین دنوں کا ساتھ لے کر چلے تھے۔ کھول کر رکھا ہی تھا کہ بندر اٹھا کر بھاگ گئے ۔‘‘

’ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایک خاتون نے اپنی تمام جمع پونجی ایک تکئے میں سی لی تھی اور تکیہ چوری ہونے کے ڈر سے ریت میں چھپا دیا تھا۔ چلتے وقت اسے نکالنے کی کوشش کی تو اس کا نام و نشان تک نہ تھا کیونکہ ریت میں کھسکتا ہوا ہو جانے وہ کہاں پہنچا ہو گا۔ خاتون تھیں کہ روتی ہی جارہی تھیں۔ سب پریشان تھے لیکن کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

پانچ چھ دن ہم یوں ہی مونا باؤ اسٹیشن پر پڑے رہے۔ یہاں تک کہ ابا کے پاس پیسے بھی ختم ہو گئے۔ ماموں جان کو کسی مسافر سے پیغام پہنچاوایا تو انھوں نے کسی کے ہاتھ چھ سو روپے بھیجے۔ پھر جا کر ہمیں مال گاڑی میں جگہ مل سکی۔ وہ بھی چند گھنٹے ہی چل سکی کہ پتا چلاکہ کوئلہ ہی ختم ۔ اب پھر اگلی مال گاڑی کا انتظار۔۔۔‘‘

’’یہ صرف سفر کی تکلیفوں کا ذکر تھا، یہاں آکر نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں بھی سالوں لگ گئے۔ پاکستان نیا نیا تھا اور نئی جگہ یہ سب کچھ ہوتا ہے یہ سوچ کر وقت گزار لیا،تکلیفیں سہہ لیں لیکن آج جب اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو محض کوٹے کے سبب نوکریاں نہ مل رہی ہوں، انہیں اپنی شناخت کے لئے سر دھنتا دیکھوں تو دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔ چار صوبے اور قومیں تو گنی جاتی ہیں لیکن چار سے آگے کی گنتی گنیں تو ’سمندر‘ دکھانے کی بات کی جاتی ہے ۔۔اب لگتا ہے ہم وہ درخت ہیں جو زمین سے نکلے تو ہمارے جڑوں کو ہوا لگ گئی۔۔اب دوبارہ پنپنے کے لئے جانے کتنی صدیاں لگیں۔۔‘‘

XS
SM
MD
LG