رسائی کے لنکس

اجتماعی قبر: بلوچستان پولیس کے سربراہ سپریم کورٹ طلب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چیف جسٹس نے بلوچستان پولیس کے سربراہ اور خضدار کے ڈپٹی کمشنر کو چار فروری کو عدالت عظمیٰ میں طلب کیا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلوچستان کے ضلع خضدار میں اجتماعی قبر سے 13 مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کے واقعے کا از خود نوٹس لیا ہے۔

عدالت عظمیٰ کی طرف سے ہفتہ کو جاری ایک بیان کے مطابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے یہ نوٹس وائس فار بلوچستان مسنگ پرسنز کے چیئرمین کے ایک بیان پر مبنی اخباری خبر پر لیا۔

اس بیان میں چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے دعویٰ کیا تھا کہ ملنے والوں لاشوں میں سے تین کا تعلق لاپتہ افراد میں سے ہے جب کہ انھوں نے خضدار کے ڈپٹی کمشنر سے منسوب یہ بیان بھی دیا کہ علاقے سے 25 لاشیں برآمد ہوئیں اور مزید بھی برآمد ہو سکتی ہیں۔

چیف جسٹس نے بلوچستان پولیس کے سربراہ اور خضدار کے ڈپٹی کمشنر کو چار فروری کو عدالت عظمیٰ میں طلب کیا ہے۔

قبل ازیں لاشیں ملنے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی حکومت نے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نور مسکنزئی کی سربراہی میں یہ کمیشن ایک ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ محکمہ داخلہ کو پیش کرے گا۔

صوبائی حکام کے مطابق خضدار کے علاقے توتک میں مقامی چرواہوں کی اطلاع پر وہاں اجتماعی قبروں سے 13 لاشیں برآمد کی گئی تھیں جن کی حالت شناخت کے قابل نہیں تھی۔

اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا تھا اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ مسخ شدہ لاشیں تو پہلے بھی ملتی رہی ہیں لیکن اجتماعی قبروں کی موجودگی کا یہ پہلا واقعہ ہے جس بنا پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے مرکزی و صوبائی حکومت سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے لاشوں اور ان کے قاتلوں کی شناخت کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ان کی حکومت واقعے کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس کی مکمل تحقیقات کا اصولی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ ان کے بقول لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا۔
XS
SM
MD
LG