رسائی کے لنکس

وزارت دفاع نے 14 مبینہ لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کردیا


A rescue worker surveys the scene outside a Shi'ite mosque after an explosion in Shikarpur, Sindh province, Pakistan, Jan. 30, 2015.
A rescue worker surveys the scene outside a Shi'ite mosque after an explosion in Shikarpur, Sindh province, Pakistan, Jan. 30, 2015.

ان افراد کے چہرے چادروں سے ڈھانپے گئے تھے جنہیں دو گاڑیوں میں عدالت عظمیٰ میں لایا گیا اور جسٹس امیر ہانی مسلم کے سامنے ایک بند کمرے میں پیش کیا گیا۔

پاکستان میں وزارت دفاع کی طرف سے ملک کے شمال مغربی حصے سے مبینہ طور پر لاپتہ 14 افراد کو ہفتہ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جس سے عدالت کی طرف سے کسی انتہائی احکامات کے امکانات موخر ہو گئے ہیں۔

ان افراد کو دو گاڑیوں میں عدالت عظمیٰ میں لایا گیا جہاں بند کمرے میں اٹارنی جنرل منیر اے ملک کے بقول جسٹس امیر ہانی مسلم کی نگرانی میں ان کی شناخت سے متعلق کارروائی کی گئی۔

آمد پر ان لوگوں کے چہرے چادروں سے ڈھانپے گئے تھے جبکہ سیکورٹی پر پولیس کی اضافی نفری عدالت کی عمارت میں تعینات تھی۔

تقریباً چھ گھنٹوں کی اس کارروائی کے بعد حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ چھ افراد کی شناخت مکمل ہو چکی ہے اور دیگر کی پیر یا منگل کو ہوگی۔

عدالت عظمیٰ نے لاپتہ افراد کے ایک مقدمے میں حکومت کو احکامات جاری کیے تھے کہ 33 افراد کو عدالت میں حاضر کیا جائے جن کے بارے میں ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں سے تعلق کے شبے میں سیکورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں۔

لاپتہ افراد کے معاملے پر سرگرم تنظیم ڈیفنس فار ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ جنجوعہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان مبینہ طور پر لاپتہ افراد کی عدالت میں حاضری کو اچھی پیش رفت گردانا۔

’’اب ثابت ہوچکا کہ ان کے خلاف تفتیش مکمل ہوگئی اور ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ تو اگر تو عدالتی دباؤ پر انہیں رہا کردیا گیا تو یہ باقی لاپتہ افراد کے لیے بہت بڑی امید بن جائے گی۔ اگر دوبارہ تفتیشی مراکز میں لے جایا گیا تو اس کا مطلب ہماری جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔‘‘

وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جمعہ کو عدالت کو ان افراد کے کوائف دیتے ہوئے اس بات کی تردید کی تھی کہ ان میں سے کوئی بھی فوج کی تحویل میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف دو مشتبہ افراد سول انتظامیہ کے تفتیشی مرکز میں ہیں۔

حکومت کی طرف سے ان افراد کو عدالت کے روبرو پیش کرنے میں تاخیر پر سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری رواں ہفتے متعدد مرتبہ حکومت یا فوج کے خلاف ’’سخت‘‘ احکامات جاری کرنے کی تنبیہ کی تھی۔

وفاقی وزیر نے جمعہ کو عدالت کو کہا کہ یہ رہا کردہ افراد آزاد زندگی گزار رہے تھے جبکہ ان کے کچھ ساتھی افغانستان جا چکے ہیں۔

تاہم لاپتہ افراد کے ایک وکیل انعام الرحیم نے عدالت میں مبینہ لاپتہ افراد کی پیشی اور شناخت کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’اگر یہ فوج کی تحویل میں نہیں تھے تو سیکرٹری ڈیفنس کس حیثیت میں انہیں لے کر آئے ہیں؟ پھر کون انہیں لیکر آیا سرحد حکومت؟ ان کی تمام باتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ پھر ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کن کن افراد کو یہاں پیش کیا گیا؟ یہ عمل کوئی شفاف نہیں۔‘‘

وزرات دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان 14 افراد کو ڈھونڈ کر یہاں لایا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان افراد کی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر ان سے متعلق معلومات کو صیغہ راز میں رکھنے کی عدالت سے درخواست کی گئی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں کافی عرصے سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو اس کی خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔

اسی سلسلے میں خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مشتبہ لوگوں کو تحویل میں رکھنے کے طریقہ کار سے متعلق پارلیمان میں قانون سازی پر کام ہورہا ہے۔
XS
SM
MD
LG