رسائی کے لنکس

مجوزہ عدالتی کمیشن سپریم کورٹ میں چیلنج


مجوزہ عدالتی کمیشن سپریم کورٹ میں چیلنج
مجوزہ عدالتی کمیشن سپریم کورٹ میں چیلنج

اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت تجویز کردہ جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے اور درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اس کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار آئین کے تحت عدلیہ کو حاصل آزادی سے متصادم ہے۔

ہفتے کے روز ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے ایڈووکیٹ ندیم احمد کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی ہے جس میں یہ مئوقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا قیام پارلیمان کا استحقاق نہیں ہے۔

درخواست میں وفاق کو فریق بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ججوں کی تقرری خالصتاً عدلیہ کا معاملہ ہے اور مجوزہ کمیشن میں وزیر قانون کی حکومتی نمائندے کی حیثیت سے شمولیت بلاجواز ہے۔

واضح رہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں مجوزہ جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے اور اس میں عدالت عظمیٰ کے دو ججوں کے علاوہ ایک ریٹائرڈ جج،اٹارنی جنرل آف پاکستان ،وزیرقانون اور پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین شامل ہوں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پہلے ہی مجوزہ کمیشن کی مخالفت میں قرارداد منظور کرچکی ہے۔

ادھر اسلام آباد میں جاری تین روزہ قومی عدالتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ عدلیہ کا کام انتظامیہ یا مقننہ کی مخالفت کرنا نہیں ہے لیکن یہ ہر اس قانون کو کالعدم قرار دینے کا آئینی اختیار رکھتی ہے جو قرآن وسنت اور بنیادی شہری حقوق کے منافی پایاجائے۔

انھوں نے کہا کہ پارلیمان کو آئین کے مطابق قانون سازی کرنی چاہیے اورکسی خلاف ورزی کی صورت میں عدلیہ اختیارات کے غلط استعمال کو روک سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک جمہوری معاشرے میں عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ سمیت کسی بھی ریاستی ادارے کو لامحدود اختیارات نہیں دیے جاسکتے اور ہرادارے کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہوتاہے ۔ تاہم چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ آئین کے نگہبان کی حیثیت سے افراد نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی پر مبنی نظام کی نگرانی کرتی ہے۔

XS
SM
MD
LG